افغانستان سے فوج کے انخلا کی کوئی جلدی نہیں: صدر ٹرمپ

صدر ڈونلڈ ٹرمپ۔(فائل فوٹو)

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کا کوئی ٹائم فریم طے نہیں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی فوج افغانستان میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے موجود ہے۔

فرانس میں جی سیون ممالک کے اجلاس کے بعد نیوز کانفرنس کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہیں افغانستان سے امریکی فوج نکالنے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔

صدر ٹرمپ کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن مذاکرات آخری مراحل میں داخل ہو چکے ہیں اور افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا ان مذاکرات کا محور ہے۔

صدر ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ ان کی انتظامیہ افغان حکومت اور طالبان سے بات چیت کر رہی ہے اب دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں امن مذاکرات جاری ہیں۔ (فائل فوٹو)

تجزیہ کاروں کے بقول، صدر ٹرمپ کے بیان سے قبل امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ امریکہ طالبان کے ساتھ ایک جامع امن معاہدے کا متمنی ہے۔

افغان امور کے ماہر اور صحافی طاہر خان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا بیان طالبان کو ایک پیغام بھی دینا ہے کہ امریکہ افغان تنازع کے حل کے لیے ایک ایسے جامع امن معاہدے کا خواہاں ہے جس میں تمام افغان فریقین بشمول افغان حکومت کی رضامندی بھی شامل ہو۔

طاہر خان کے بقول، قطر میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والی بات چیت کے نتیجے میں متوقع معاہدہ ایک ابتدائی معاہدہ ہو گا جس کے بعد دیگر معاملات طے کرنے کے لیے افغان دھڑوں بشمول افغان حکومت کے نمائندوں کے درمیان بات چیت ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغان دھڑوں کے درمیان بات چیت میں جنگ بندی افغانستان کے سیاسی مستقبل اور افغان سیکورٹی فورسز کے معاملات زیر بحث آئیں گے۔

امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے خبر رساں ادارے رائٹرز کی اس رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے جس مین دو طالبان کمانڈروں کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکہ امن سمجھوتہ طے پانے کے بعد افغان سیکورٹی فورسز کی حمایت ختم کر دے گا۔ خلیل زاد کے بقول، یہ "درست نہیں ہے۔"

خلیل زاد نے واضح کیا کہ امریکہ طالبان کے ساتھ معاہدہ طے پا جانے کے باوجود افغان فورسز کا دفاع کرے گا۔ ان کے بقول، تمام فریقین کو اس بات پر اتفاق کرنا ہو گا کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغان دھڑوں کے درمیان مذاکرات سے ہی ہو گا۔

خلیل زاد کی قیادت میں امریکہ کی مذاکراتی ٹیم اور طالبان نمائندوں کے درمیان مذاکرات کا اہم اور فیصلہ کن دور جاری ہے جو فریقین کے درمیان متوقع معاہدہ طے پانے کے حوالے سے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

آتھ ہزار سے زائد امریکی فوجی اب بھی افغانستان میں تعینات ہیں۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں بات چیت گزشتہ ایک سال سے جاری ہے اگرچہ اس بات چیت کا محور افغانستان سے غیر ملکی فورسز کا انخلا اور مستبقل میں طالبان کی طرف سے ایک محفوظ افغانستان کی ضمانت فراہم کرنا ہے جو کسی دوسرے ملک کے لیے دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہو سکے۔

امریکی عہدیدار طالبان پر کابل حکومت سے براہ راست بات چیت اور جنگ بندی پر زور دے رہے ہیں جس پر طالبان رضا مند نہیں ہو رہے۔