حکومتِ پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ کرونا وائرس کے خدشے کے باوجود ملک بھر میں مساجد بند نہیں ہوں گی۔ البتہ باجماعت نماز اور جمعے کے اجتماعات کو محدود رکھا جائے گا۔
پاکستان کے صدرِ ڈاکٹر عارف علوی نے جمعرات کو ویڈیو کانفرنس کے ذریعے علما کرام سے اس معاملے پر تفصیلی مشاورت کی۔ جس کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔
وفاقی وزیر نور الحق قادری نے کہا کہ تمام مکاتیب فکر کے علما نے اتفاق کیا ہے کہ مساجد بند نہیں کی جائیں گی۔ البتہ باجماعت نماز اور جمعے کے اجتماعات کو محدود رکھا جائے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ مسجد انتظامیہ اور محدود تعداد میں نمازی ہی باجماعت نماز ادا کریں گے۔
مشاورتی اجلاس میں ملک بھر کے مختلف مکاتیب فکر سے تعلق رکھنے والے علما شریک ہوئے۔ وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری اور چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل قبلہ ایاز صدر پاکستان کی معاونت کی۔
President Dr. Arif Alvi held a video conference with ulema from various schools of thought today to discuss the situation arising out of #Covid19 pandemic and sought their cooperation to create awareness among the masses. pic.twitter.com/hMaR12QrIo
— The President of Pakistan (@PresOfPakistan) March 26, 2020
اس سے قبل باجماعت نماز اور جمعے کے اجتماعات سے متعلق بعض علما نے بھی اعلامیہ جاری کیا تھا کہ مساجد کھلی رکھی جائیں گی۔ البتہ باجماعت اور جمعے کی نماز کے دورانیے کو کم کر دیا جائے گا۔
کراچی میں اجلاس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے میں مزید کہا گیا تھا کہ مساجد سے اذان، اقامت اور باجماعت نماز کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اسی طرح جمعے کو بھی صرف عربی خطبے پر ہی اکتفا کیا جائے گا۔ البتہ علما پانچ منٹ کے لیے لوگوں کو کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے آگاہی دیں گے۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ وہ افراد جنہیں ڈاکٹرز نے جمعے کی ادائیگی کے لیے مسجد نہ جانے کا مشورہ دیا ہے۔ وہ گھر پر ہی نماز ظہر ادا کریں۔ نابالغ بچوں کو بھی مساجد نہ آنے کی تلقین کی گئی ہے۔
جامعہ دارالعلوم کراچی کے مفتی رفیع عثمانی، ناظم وفاق المدارس العربیہ مولانا محمد حنیف جالندھری، جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، جامعہ الرشید کے مفتی عبدالرحیم، مفتی امداد اللہ، جامعہ بنوریہ کے علما، اشرف المدارس، جامعہ فاروقیہ کے علما نے بھی اس اعلامیے کی توثیق کی ہے۔
تنظیم المدارس کے صدر مفتی منیب الرحمان، جامعہ نعمیہ، جامعہ انوار القرآن اور جماعت اسلامی سمیت ملک بھر کے اہم دینی مراکز نے بھی اعلامیے کی منظوری دی ہے۔
اعلامیے میں سنت نماز اور نوافل کا اہتمام گھر پر کرنے کا کہا گیا ہے جب کہ وضو بھی گھر سے کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔ وہ نوجوان جو گھروں میں بزرگوں کی تیمارداری میں مصروف ہیں اُنہیں بھی گھر پر نماز پڑھنے کا کہا گیا ہے۔
علما نے اس وبا کے خاتمے کے لیے اللہ سے رُجوع اور میڈیا پر قابل اعتراض مواد نشر نہ کرنے کی بھی اپیل کی ہے۔
البتہ شیعہ علما کونسل کے رکن مولانا شہنشاہ نقوی نے باجماعت نمازیں ادا نہ کرنے کی تجویز دی۔ اُن کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتِ حال میں فقہ جعفریہ کی تمام مساجد اور امام بارگاہیں کھلی رہیں گی۔
تاہم اجتماعی عبادات کے بجائے عارضی طور پر انفرادی سطح پر ادا کی جائے گی۔ علامہ شہنشاہ نقوی کا کہنا ہے کہ اس کا فیصلہ عالمی سطح پر ڈاکٹرز کی رائے کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔
اسی طرح بعض دیگر علما جن میں مولانا طارق جمیل، ڈاکٹر طاہر القادری، جاوید احمد غامدی اور جامعتہ المنتظر کی جانب سے بھی انہیں آرا کا اظہار کیا گیا ہے۔ ان علما نے جمعے کے اجتماعات کو موقوف کرنے کی تجویز دی ہے۔ اور اس حوالے سے پیغمبر اسلام کی زندگی کے مختلف حوالے بھی دیے جا رہے ہیں۔
جامعہ الازہر کا فتویٰ
پاکستان کے صدر ہی کی درخواست پر مصر کی معروف دینی درس گاہ جامعہ الازہر کے سپریم علما کونسل نے فتویٰ جاری کیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ انسانی زندگیوں کے تحفظ اور وبا سے بچنے کے لیے باجماعت نماز اور نماز جمعہ کی ادائیگی گھروں پر کی جائے۔
فتویٰ میں مزید کہا گیا ہے کہ وبا کی صورت اور اس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے کوئی بھی حکومت نماز باجماعت کی ادائیگی پر پابندی عائد کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔
میں جامعہ الازہر کے مفتی اعظم اور سپریم کونسل کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے کورونا وائرس کی وباء کے دوران مساجد میں جماعت اور جمعہ کی نماز کے سلسلے میں رہنمائی فراہم کرنے کی میری درخواست کا جواب دیا۔ ہمارے علماء کے لئے فتویٰ کی تفصیل درج ذیل ہیں۔ pic.twitter.com/6oauwuiufe
— The President of Pakistan (@PresOfPakistan) March 25, 2020
معروف مذہبی اسکالر اور کالم نگار خورشید ندیم کا کہنا ہے کہ علمائے کرام کی رائے میں اختلاف ہو سکتا ہے تاہم ایک اُصولی بات یہ ہے کہ اس میں نظم اجتماعی یعنی ریاست کی جانب سے فیصلے کو ہی حتمی سمجھا جائے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے خورشید ندیم کا کہنا تھا کہ دین کا اُصول بھی یہی ہے کہ حکومت کی رائے کو ہی آخری مان کر اس پر عمل کیا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ علما کی رائے یقیناً مختلف ہو سکتی ہے جس کا انہیں حق ہے، لیکن ریاست اس میں سے کسی ایک رائے کا انتخاب کرے گی۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں بھی کئی علما نے باجماعت اور جمعے کی نماز کے اجتماع ترک کرنے سے متعلق رائے دی ہے۔ ایک سے زیادہ آرا سامنے آنے پر ریاست یہ حق رکھتی ہے کہ وہ ایک رائے کو اختیار کر کے قانون بنادے۔
اُن کے بقول دین اسلام کا حکم ہے کہ عوام اس فیصلے کو قبول کر کے اس پر عمل کریں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ معاملہ چھوٹا نہیں بلکہ عوامی مفاد بلکہ عوام کی صحت اور ان کی زندگی سے جڑا ایک اہم مسئلہ ہے۔