'ایک جماعت نے دوسری پر پابندی لگائی تو پھر یہ سلسلہ نہیں رُکے گا'

فائل فوٹو

وفاقی حکومت کی جانب سے پاکستانِ تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف ڈیکلریشن سپریم کورٹ بھجوانے کے بعد اس جماعت کے مستقبل کا فیصلہ سپریم کورٹ کے ہاتھوں میں جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ سپریم کورٹ سے پی ٹی آئی کے خلاف فیصلہ آنے کی صورت میں اس جماعت پر پابندی بھی لگ سکتی ہے۔

اس صورتِ حال میں مختلف حلقوں میں بحث کی جا رہی ہے کہ کیا کسی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کر دینامسئلے کا حل ہے یا نہیں؟ ماضی میں کسی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کرنے سے فائدہ ہوا یا نقصان؟

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں وقتی فائدے کے لیے ایسی قانون سازی کرتی ہیں جن سے ان کی مخالف جماعت کو نقصان اور انہیں فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن مستقبل میں انہی قوانین کا شکار ہونے پر وہ ان قوانین کے خلاف بات کرتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان اس پر بات ہونی چاہیے کہ وہ ایسے قوانین کو ختم کریں جن سے جمہوری عمل اور سیاسی جماعتوں کو نقصان پہنچتا ہو۔


پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر پابندی کی تاریخ

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ 1954 میں پاکستان کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگائی گئی۔

اس جماعت پر یہ الزام تھا کہ اس نے راولپنڈی سازش کیس میں ملوث ہو کر ملک دُشمنی کی اور اسی بنیاد پر ملک بھر میں جماعت کے ورکرز کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا۔

خیال رہے کہ سن 1951 میں پاکستان کے بعض فوجی افسران اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ اُنہوں نے اس وقت کے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لیے سازش کی۔ اسے راولپنڈی سازش کیس کا نام دیا گیا۔

سازش کے الزام میں پاکستان کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ سجاد ظہیر کو بھارت واپس بھجوا دیا گیا ۔ پابندی لگنے سے پہلے اس جماعت کے اراکین کی تعداد تین ہزار کے لگ بھگ تھی۔

SEE ALSO: ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ؛ حکومت کے پاس کیا آپشنز ہیں؟


نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی

دوسری بڑی سیاسی جماعت جس پر پابندی لگی وہ نیشنل عوامی پارٹی تھی۔ اس جماعت پر دو مرتبہ پابندی لگی ۔ پہلی مرتبہ 1971 میں یحییٰ خان اور پھر 1975 میں ذوالفقار علی بھٹو کے دورمیں پابندی لگی۔

اس جماعت پر بھی ملک دشمن سرگرمیوں کا الزام عائد کیا گیا ۔ نیپ پر سب سے بڑا الزام اس وقت کے سینئر وزیر صوبہ سرحد(موجودہ خیبر پختونخوا) حیات خان شیر پاؤ کے قتل کا تھا۔ انہیں آٹھ فروری 1975 کو پشاور یونیورسٹی میں ایک تقریب کے دوران ہونے والے دھماکے میں ہلاک کیا گیا۔ اس دھماکے کا الزام نیپ پر عائد کیا گیا۔

اس پر اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس کے اگلے ہی روز قومی اسمبلی میں دو بلوں کی منظوری دی جس میں ایک میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کی گرفتاری کا استثنٰی ختم کردیا گیا۔ دوسرا پولیٹکل پارٹیز ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے وفاقی حکومت کو اختیار دیا گیا کہ وہ قومی سلامتی کے خلاف کام کرنے والی جماعتوں کو خلاف قانون قرار دے سکے۔ اس قانون بننے کے اگلے روز 10 فروری 1975 کو نیشنل عوامی پارٹی پرپابندی عائد کردی گئی۔

اس وقت کی حکومت نے نیشنل عوامی پارٹی کو غیرآئینی قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس بھی دائر کیا جس میں نیپ کی اس وقت کی قیادت بشمول ولی خان کی طرف سے بینچ پر عدم اعتماداور ان کے اعتراضات کو مسترد کرنے پر انہوں نے عدالتی کارروائی میں حصہ نہ لیا اور عدالت نے بھی ان پر پابندی کی توثیق کردی۔

پابندی کی شکار سیاسی مذہبی جماعتیں

پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں میں مذہبی و سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کی گئی۔ ان میں سے بعض ایسی جماعتیں بھی ہیں جو انتخابی نشان رکھتے ہوئے ماضی میں انتخابات میں بھی حصہ لیتی رہیں اور ان کے ارکان اسمبلی قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بھی رہے لیکن ان پر پابندی عائد کردی گئی۔

ان مذہبی سیاسی جماعتوں میں سپاہ صحابہ پاکستان، سپاہ محمد پاکستان، تحریکِ جعفریہ پاکستان، ملتِ اسلامیہ پاکستان شامل ہیں۔ ان میں سے بعض جماعتیں قائدین اور نام بدل کر آج بھی سیاست کررہی ہیں لیکن پابندیوں کے باعث سیاست میں ان کا کردار محدود ہوا ہے۔

کیا سیاسی جماعت پر پابندی لگنی چاہیے؟

کیا کسی سیاسی جماعت کو کسی قانونی جواز پر مکمل طور پر ختم کردینا چاہیے، اس پر پابندی لگا دینی چاہیے؟ اس بارے میں تجزیہ کاراور سینئر صحافی مظہر عباس نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 2017 میں جب نواز شریف کو نااہل کیا گیا تو اس وقت بحث ہوئی کہ عمر بھر کے لیے نااہل کرنے کی سزا درست نہیں، سزا دی جائے لیکن ایسا نہ کیا جائے۔

مظہر عباس کے بقول سن 2002 میں پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کے سیاست میں حصہ لینے پر پابندی لگائی۔ ان کی جماعتوں نے الیکشن لڑا لیکن وہ خود انتخابات میں حصہ نہ لے سکے، اسی طرح سابق فوجی ڈکٹیٹر ضیاالحق کے زمانے میں پیپلز پارٹی پر پابندی لگی رہی۔

اس کے علاوہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پر بھی لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے بعد غیراعلانیہ پابندی لگی۔ حکم کے تحت الطاف حسین کا نام لینے یا اُن کی تصویر نشر کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔

مظہر عباس کا کہنا تھا کہ ماضی میں بہت سی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ایسا ہوتا رہا اور اب عمران خان کے خلاف الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد حکومت میں ایک سوچ موجود ہے کہ اگر اور جماعتوں پر پابندی لگ سکتی ہے تو پی ٹی آئی پر بھی لگ سکتی ہے۔ عمران خان کے خلاف بھی ریفرنس فائل ہو سکتا ہے۔

مظہرعباس کا کہنا تھا کہ یہ سیاسی جماعتوں کے سوچنے کی بات ہے کہ اگر ایک جماعت کے ہاتھوں دوسرے پر پابندی لگے تو یہ سلسلہ کہیں رکنے والا نہیں ہے۔

حکومتِ پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ تحریکِ انصاف کے فارن فنڈنگ کیس کے معاملے پر سپریم کورٹ سے رُجوع کیا جائے گا۔

اُن کے بقول اگر عمران خان نے جرم کیا ہے تو سزا ہونی چاہیے لیکن ایسی نہیں ہونی چاہیے کہ ان کی یا ان کی جماعت کی سیاست ختم کردی جائے۔ اگر ممنوعہ فنڈنگ کی ہے تو وہ ضبط ہونی چاہیے، جرمانہ ہونا چاہیے ۔اسی طرح ایک پورا معیار سیاست دانوں کو بنانا پڑے گا جس کے مطابق سب سیاست دان چلیں۔

انہوں نے کہا کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں لیکن سیاست دانوں کا ریکارڈ زیادہ بہتر ہونا چاہیے تاکہ لوگ ان پر اعتماد کریں۔

'سیاسی جماعتوں پر پابندی لگانا نامناسب ہے'

پاکستان تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے سینئر قانون دان حامد خان کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں پر پابندی لگانا نامناسب ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حامد خان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 17 کے مطابق ہر کسی کو حق ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت بنائے اور چلائے۔ حالیہ معاملے میں تحریکِ انصاف کے خلاف ریفرنس بھجوایا جارہا ہے جس میں پی ٹی آئی کو فارن فنڈڈ پارٹی بنایا جارہا ہے۔ یہ سیاسی جماعت ہے جس میں فنڈز ہوسکتا ہے غلط آگئے ہوں لیکن اسے بین کرنے کی کوشش ایک غلط قدم ہے اور حکومت کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔

مظہرعباس کا کہنا تھا کہ بہت سے قوانین صرف سیاست دانوں نے نہیں بلکہ فوجی حکمرانوں نے بھی بنائے ہیں، لیکن بیشتر سیاست دان ایک دوسرے کے خلاف قانون سازی کرتے ہیں اور اسے استعمال کرتے ہیں اور جب اپوزیشن میں جاتے ہیں تو وہی چیزیں ان کو متاثر کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب جیسے موجودہ حکومت 62 ون ایف کے تحت عمران خان کے خلاف کارروائی کرنا چاہتی ہے تو کل تک یہی جماعت نوازشریف کے خلاف یہ قانون استعمال ہونے پر نالاں تھی۔


انہوں نے کہا کہ سیاست دانوں کو چاہیےکہ وہ صرف آج کا فائدہ نہ دیکھیں بلکہ اسے کل کے حساب سے دیکھیں اور اپنے مخالفین کے خلاف استعمال نہ کریں۔ یہ سب باتیں سیاست دانوں کے سوچنے کی ہیں جس کے بعد ہی ملک میں جمہوری نظام پنپ سکتا ہے۔

ایک دوسرے کو قانون کے ذریعے نیچا دکھانے اور پھنسانے والی قانون سازی کے بارے میں پی ٹی آئی کے رہنما حامد خان نے کہا کہ "ایک بار میں نے رضا ربانی سے پوچھا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کو آپ نے 18 ویں ترمیم کے وقت آئین سے نکال دینا تھا؟ اس پر رضا ربانی نے بتایا کہ میں اور پیپلز پارٹی تو اس پر تیار تھے لیکن مسلم لیگ(ن) نے اس کی سخت مخالفت کی تھی۔ مسلم لیگ (ن) کا کہنا تھا کہ یہ اسلام کے مطابق ہے لیکن بعد میں ان کے اپنے لیڈر اسی قانون کی زد میں آئے۔'

انہوں نے کہا کہ عمران خان بھی اس کی حمایت کرتے تھے لیکن اب حنیف عباسی کی درخواست موجود ہے اور حکومت اسے سپریم کورٹ میں لے کر جائے اور ہو سکتا ہے کہ عمران خان بھی اس کا شکار ہو جائیں۔

حامد خان کے بقول اس معاملہ پر سیاست دانوں کے درمیان بات چیت ہونی چاہیے اور ایسے قوانین کو مل کر ختم کرنا چاہیے۔