پاکستان کے صوبۂ بلوچستان میں وزیرِ اعلٰی کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد آنے کے بعد سیاسی بحران میں شدت آ رہی ہے جب کہ وزیرِ اعلٰی اپوزیشن اور ناراض حکومتی اراکین کے دباؤ کے باوجود مستعفی ہونے سے مسلسل انکار کر رہے ہیں۔
پیر کو ناراض حکومتی اراکین نے عدمِ اعتماد کی تحریک سیکرٹری اسمبلی کو جمع کرائی تحریک پر 14 ناراض اراکین کے دستخط موجود تھے۔
تحریکِ عدمِ اعتماد جمع کرانے کے بعد حکمراں جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے ناراض رکن ظہور بلیدی نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزیرِ اعلٰی سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ خود ہی رضاکارانہ طور پر مستعفی ہو جائیں۔
ظہور بلیدی نے کہا کہ "وزیرِ اعلیٰ نے ہماری بات کو ہوا میں اڑا دیا اور کہا کہ 12 لوگوں کے کہنے پر میں استعفیٰ نہیں دوں گا۔"
SEE ALSO: کیا بلوچستان کے سیاسی بحران کا وفاقی حکومت پر بھی اثر پڑ سکتا ہے؟
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے آج 14 اراکین کے دستخط سے وزیرِ اعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد سیکرٹری کے پاس جمع کرائی ہے جن میں اکثریت بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین کی ہے جب کہ بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی بھی ہمارے ساتھ اس تحریک میں شامل ہے۔
بلوچستان بحران کے خاتمے کے لیے اسلام آباد میں بیٹھک
بلوچستان عوامی پارٹی کے ذرائع کے مطابق وزیرِ اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد کا معاملہ کوئٹہ سے اسلام آباد منتقل ہو گیا ہے۔
گورنر بلوچستان سید ظہور آغا پیر کو رات گئے اسلام آباد پہنچ گئے ہیں جہاں وہ قانونی ماہرین، وزیرِ اعظم اور پارٹی رہنماؤں سے موجودہ صورتِ حال پر مشاورت کریں گے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل حکومتی اتحاد کے ناراض اراکین نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
گورنر بلوچستان کو استعفیٰ پیش کرنے والوں میں وزرا، مشیر اور پارلیمانی سیکرٹریز شامل ہیں۔
استعفیٰ دینے والوں میں صوبائی وزرا عبدالرحمان کھیتران، اسد بلوچ، ظہور بلیدی جب کہ مشیران میں اکبر آسکانی اور محمد خان لہڑی جب کہ پارلیمانی سیکرٹریز میں بشریٰ رند اور سکندر عمرانی شامل ہیں۔
ناراض اراکین نے عندیہ دیا تھا کہ وہ اگلے مرحلے میں وزیرِ اعلیٰ کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد بلوچستان اسمبلی میں جمع کرائیں گے۔
تحریکِ عدمِ اعتماد اور نمبر گیم
بلوچستان کے سینئر صحافی اور تجزیہ کار رشید بلوچ کے مطابق بظاہر اپوزیشن اور ناراض اراکین کو تحریکِ عدمِ اعتماد کامیاب بنانے کے لیے مطلوبہ اراکین موجود ہیں۔
خیال رہے کہ تحریکِ عدمِ اعتماد پر ووٹنگ کے لیے اسپیکر اجلاس طلب کرتا ہے اور اگر وزیرِ اعلٰی مطلوبہ ووٹ حاصل نہ کر سکیں تو اُنہیں اپنا عہدہ چھوڑنا پڑتا ہے جس کے بعد نئے قائدِ ایوان کا انتخاب ہوتا ہے۔
اپوزیشن جماعتوں میں بلوچستان نیشنل پارٹی، جمیعت علمائے اسلام (ف) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ارکان بھی شامل ہیں جن کے مجموعی اراکین 24 ہیں۔
رشید بلوچ کے بقول پیر کو جن ناراض اراکین نے تحریکِ عدم جمع کرائی اس پر 14 اراکین نے دستخط کیے جب کہ اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالقدوس بزنجو کے ساتھ یہ تعداد 15 ہوتی ہے۔
آئینی طور پر وزیرِ اعلیٰ کے خلاف سادہ اکثریت حاصل کرنے کے لیے 33 اراکین کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ اپوزیشن اور ناراض اراکین کو کل 39 اراکین کی برتری حاصل ہے۔
وزیرِ اعلیٰ بلوچستان جام کمال کے پاس اتحادی جماعتوں عوامی نیشنل پارٹی، ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی کے کل 25 اراکین ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ بلوچستان ایوان میں اکثریت کھو بیٹھے ہیں تاہم سیاست میں کچھ بھی حرفِ آخر نہیں ہوتا۔
'وزیر اعلیٰ ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں'
ادھر ترجمان بلوچستان حکومت لیاقت شاہوانی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا ہے کہ "وزیرِ اعلی بلوچستان کو بلوچستان عوامی پارٹی و اتحادیوں کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔ لہذٰا وزیرِ اعلٰی استعفی نہیں دیں گے۔"
لیاقت شاہوانی کے بقول ناراض دوستوں کو منانے کی کوشش جاری رہے گی۔
وزیرِ اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ چند ایک ناراض اراکین جن کی تعداد 12 ہے کے کہنے پر ہرگز استعفیٰ نہیں دیں گے۔
واضح رہے کہ وزیرِ اعلیٰ جام کمال خان نے گزشتہ دنوں بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کی صوبائی صدارت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ وزیرِ اعلیٰ کے اس فیصلے پر جماعت کے رہنماؤں اور کارکنوں کی اکثریت ناراضگی کا اظہار کر رہی ہے۔
گزشتہ ماہ بھی بلوچستان اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے وزیرِ اعلیٰ جام کمال خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد جمع کرا دی تھی جسے بعدازاں واپس لے لیا گیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ناراض اراکین کی جانب سے گزشتہ روز کھل کر سامنے آنے اور عدم اعتماد کی تحریک جمع کرانے کے بعد وزیر اعلیٰ بلوچستان کے لیے مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔