کیا بلوچستان کے سیاسی بحران کا وفاقی حکومت پر بھی اثر پڑ سکتا ہے؟

پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں حکمراں جماعت میں اختلافات کے باعث سیاسی بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ وزیرِ اعلٰی جام کمال کے خلاف پہلے اپوزیشن اور اب ان کی اپنی جماعت کے اراکین کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔

سیاسی بحران سے نمٹنے کے لیے وزیرِ اعلٰی جام کمال نے پہلے پارٹی صدارت سے استعفٰی دیا تھا تاہم اب بطور وزیرِ اعلٰی اُن کے استعفے کے مطالبات میں شدت آ گئی ہے۔

ناراض اراکین کا مؤقف ہے کہ وزیرِ اعلٰی بلوچستان اپنے وعدوں پر عمل کرنے میں ناکام رہے جب کہ وہ اتحادی جماعتوں کے اراکین کو وقت بھی نہیں دیتے۔

منگل کو بلوچستان عوامی پارٹی اور اتحادی جماعتوں کے ناراض اراکین کھل کر وزیر اعلیٰ کے خلاف سامنے آئے اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کو 24 گھنٹوں میں رضا کارانہ طور پر حکومت چھوڑنے کا الٹی میٹم دیا، تاہم وزیرِ اعلٰی مستعفی نہیں ہوئے۔

اس سے قبل وزیر اعلیٰ بلوچستان کو ناراض اراکین کی جانب سے رضاکارانہ طور پر حکومت چھوڑنے کے لیے دو ہفتوں کی مہلت دی گئی تھی۔

بلوچستان کی سیاسی صورتِ حال کا وفاقی حکومت پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی موجودہ سیاسی صورتِ حال سے وفاق اور پنجاب حکومت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

سنیئر صحافی اور بلوچستان کی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار بلال ڈار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر وزیرِ اعلیٰ بلوچستان جام کمال کی حکومت گرتی ہے یا وہ ازخو مستعفی ہوتے ہیں تو اس سے وفاقی حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

بلال ڈار کے بقول "اگر ہم ماضیٔ قریب میں دیکھیں تو سابق وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نواب ثنا اللہ زہری کے خلاف جب عدمِ اعتماد کی تحریک لائی گئی تھی اور انہوں نے از خود استعفیٰ دیا تھا تو اس سے وفاق میں اس وقت کے وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کی حکومت پر کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔"

انہوں نے بتایا کہ وزیرِ اعظم عمران خان اس صورتِ حال سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اگر ان کی حکومت کے خلاف کسی قسم کی سازش ہوتی یا بلوچستان کی سیاسی صورتِ حال سے ان کی حکومت کو خطرہ ہوتا تو وہ ضرور کوئی اقدام کرتے۔

بلال ڈار نے بتایا کہ اگر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ یہ محسوس کر رہی ہوتی کہ وزیرِ اعلیٰ جام کمال کی حکومت گرنے سے مرکزی حکومت کو کوئی خطرہ ہے تو وہ اس قدر غیر جانب دار نہ ہوتے۔

اُن کے بقول جس طرح جہانگیر ترین گروپ وفاقی حکومت کے لیے خطرہ بن رہا تھا تو اس گروپ کا اثر زائل کرنے کے لیے ترین گروپ کے کچھ اراکین کے خلاف مبینہ طور پر مقدمات بنائے گئے۔ لیکن اس طرح کی کارروائیاں بلوچستان میں نظر نہیں آئیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت اس سیاسی بحران کو خطرہ نہیں سمجھتی۔

بلال ڈار نے دعویٰ کیا کہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی خدشہ ہے اگر اپوزیشن کی تحریکِ عدم اعتماد کے نتیجے میں وزیرِ اعلیٰ بلوچستان گھر جاتے ہیں تو اس کا کریڈیٹ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد 'پی ڈی ایم' کی تحریک کو جائے گا۔

اسی لیے ناراض اراکین کو یہ کہا گیا ہے کہ اگر وزیرِ اعلیٰ جام کمال کی حکومت گرتی بھی ہے تو نئی حکومت بلوچستان عوامی پارٹی اور ان کے اتحادی مل کر بنائیں گے۔

ناراض اراکین کی تعداد کتنی ہے؟

بلوچستان اسمبلی میں بلوچستان عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی اور تحریک انصاف کے ناراض اراکین کی تعداد 15 ہے۔

ان اراکین میں اسپیکر بلوچستان اسمبلی قدوس بزنجو کے ساتھ بلوچستان عوامی پارٹی کے 12، تحریکِ انصاف کا ایک جب کہ بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کا ایک رکن اسمبلی شامل ہے۔

اتحادی وزرا کے استعفے

بدھ کی شام حکومتی اتحاد کے ناراض اراکین نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

گورنر بلوچستان کو استعفیٰ پیش کرنے والوں میں وزرا، مشیر اور پارلیمانی سیکرٹریز شامل ہیں۔

استعفیٰ دینے والوں میں صوبائی وزرا عبدالرحمان کھیتران، اسد بلوچ، ظہور بلیدی جب کہ مشیران میں اکبر آسکانی اور محمد خان لہڑی جب کہ پارلیمانی سیکرٹریز میں بشریٰ رند اور سکندر عمرانی شامل ہیں۔

ناراض اراکین نے عندیہ دیا ہے کہ وہ اگلے مرحلے میں وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد بلوچستان اسمبلی میں جمع کرائیں گے۔

ناراض اراکین نے پریس کانفرنس میں کیا کہا؟

منگل کی شام ناراض اراکین نے بلوچستان اسمبلی کے باہر ایک پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے کھل کر وزیرِ اعلیٰ بلوچستان کے خلاف اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیرِ خزانہ ظہور بلیدی نے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ بلوچستان پر بی اے پی کے 11 اور چند اتحادی اراکین نے عدمِ اعتماد کا اظہار کیا ہے، عدمِ اعتماد کی وجہ صوبے میں بڑھتی ہوئی بے چینی ہے۔

ظہور بلیدی نے کہا کہ ہم نے وزیرِ اعلیٰ کو مستعفی ہونے کے لیے دو ہفتوں کا وقت دیا تھا، وزیراعلیٰ نے استعفیٰ دینے کے بجائے سوشل میڈیا پر ہمارے درمیان اختلافات کا تاثر دینے کی کوشش کی۔

پریس کانفرنس کے دوران بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی سے تعلق رکھنے والے اسد بلوچ نے کہا کہ وزیرِ اعلٰی نے اتحادیوں کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے۔

اسد بلوچ نے دعویٰ کیا کہ "آج صوبے کا ہر طبقہ وزیرِ اعلیٰ سے ناراض ہے، جام کمال بضد ہیں لیکن اراکین کا اعتماد انہیں حاصل نہیں رہا۔ جام صاحب سے مطالبہ ہے کہ بلوچستان کے وسیع تر مفاد میں استعفیٰ دے دیں۔"

اس موقع پر رکن اسمبلی نصیب اللّٰہ مری نے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ استعفیٰ دیں آئندہ وزیراعلیٰ بی اے پی سے ہی ہو گا۔

صوبائی وزیر عبد الرحمان کھیتران نے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ سے گزارش ہے کہ پارٹی اور صوبے پر رحم کریں اور استعفیٰ دیں۔

'وزیر اعلٰی بھی ڈٹ گئے ہیں'

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعلی بلوچستان بھی ناراض اراکین اور اپوزیشن کے سامنے ڈٹ گئے ہیں اور انہوں مستعفیٰ ہونے کے بجائے کھل کر مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے صدر اور سنئیر صحافی شہزادہ ذوالفقار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح ناراض اراکین وزیر اعلیٰ کے خلاف کھل کر سامنے آئے ہیں اسی طری وزیر اعلیٰ جام کمال بھی اب کھل کر بات کر رہے ہیں۔

شہزادہ ذوالفقار کے بقول وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال سمجھتے ہیں کہ جو 12 لوگ ان سے ناراض ہیں ان میں سے بھی صرف پانچ ایسے ہیں جو اُن کے ساتھ نہیں جب کہ باقی اُن کا ساتھ دے رہے ہیں۔

شہزادہ ذوالفقار سمجھتے ہیں کہ اب تک وزیر اعلیٰ بلوچستان کے خلاف اپوزیشن یا ناراض اراکین کی جانب سے کرپشن یا اس طرح کے دیگر سنگین الزامات سامنے نہیں آئے، بلکہ انہیں صرف یہ گلہ ہے کہ وزیرِ اعلٰی اُنہیں وقت نہیں دیتے اور اُن کی مرضی کی تعیناتیاں نہیں ہوتیں۔

وزیرِ اعلیٰ جام کمال خان نے گزشتہ دنوں بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے صدارتی عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ وزیرِ اعلیٰ کے اس فیصلے پر جماعت کے رہنماؤں اور کارکنوں کی اکثریت ناراضگی کا اظہار کر رہی ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ ماہ بلوچستان اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے وزیرِ اعلیٰ جام کمال خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد جمع کرا دی تھی جسے بعدازاں واپس لے لیا گیا تھا۔