پشاور: نوجوان کی برہنہ ویڈیو وائرل کرنے والے پولیس افسر، اہلکاروں کے خلاف کارروائی

فائل فوٹو

پشاور کے علاقے تہکال میں پولیس اہلکاروں کی جانب سے ایک نوجوان کو برہنہ کر کے اس کی ویڈیو وائرل کرنے کے اقدام کے خلاف سیاسی و سماجی حلقے سراپا احتجاج ہیں۔ صوبائی حکومت اور عدلیہ نے بھی واقعے کا نوٹس لے لیا ہے۔

انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی) خیبر پختونخوا ثنااللہ عباسی نے وزیرِ اعلیٰ محمود خان کی ہدایت پر کارروائی کرتے ہوئے واقعے میں ملوث سینئر پولیس افسر سمیت پانچ اہلکاروں کو معطل کر دیا ہے۔

پشاور ہائی کورٹ نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی خیبر پختونخوا کو متعلقہ پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔

نوجوان کو برہنہ کرنے کے واقعے کی تحقیقات کے لیے ڈپٹی انسپکٹر جنرل کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی بھی قائم کر دی گئی ہے۔

وزیرِ اعلیٰ کی ہدایت پر بدھ کی شب پشاور کے ایس ایس پی آپریشن ظہور بابر آفریدی کو اُن کے عہدے سے ہٹا کر اُنہیں سینٹرل پولیس میں رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

وائرل ویڈیو کا واقعہ کیا ہے؟

دو روز قبل پشاور کے علاقے تہکال سے تعلق رکھنے والے نوجوان عامر نے مبینہ طور پر نشے کی حالت میں بعض پولیس افسران اور اہلکاروں کے خلاف نازیبا الفاظ پر مشتمل ایک ویڈیو وائرل کر دی تھی۔

اس کے جواب میں دو تھانوں کے پولیس اہلکاروں اور عہدیداروں نے اس لڑکے کے گھر پر چھاپہ مار کر نہ صرف اسے بلکہ خواتین سمیت گھر کے دیگر افراد پر تشدد اور اُن کی تضحیک کی تھی۔

اہلکاروں نے عامر کو برہنہ کر کے اسے اپنی بہنوں کو گالیاں دینے پر بھی مجبور کیا تھا جس کے بعد اسے برہنہ حالت میں ہی تھانے میں پریڈ کرائی تھی۔

پولیس اہلکاروں نے نہ صرف اس تمام واقعے کی ویڈیو بنا کر متعلقہ افسران کو بجھوائی تھی بلکہ اسے سوشل میڈیا پر بھی وائرل کر دیا تھا۔

متاثرہ نوجوان کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ردِ عمل میں پشاور سمیت صوبے کے دیگر علاقوں سے سول سوسائٹی، سیاسی و سماجی تنظیموں سے منسلک افراد نے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور احتجاجی مظاہرے کیے جب کہ 'عامر کو انصاف دو' ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بھی بنا رہا۔

SEE ALSO: خیبر پختونخوا: پولیس اہلکاروں کو واٹس ایپ گروپس چھوڑنے کا حکم

وزیرِ اعلیٰ محمود خان اور آئی جی خیبر پختونخوا کی ہدایت پر متعلقہ پولیس افسران اور اہلکاروں کی معطلی کے باوجود اس واقعے پر احتجاج اور مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔

جمعرات کو جماعتِ اسلامی سمیت کئی ایک دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور سماجی تنظیموں کے ذمہ داران نے پشاور پریس کلب اور صوبائی اسمبلی کے سامنے مظاہرے کیے۔

مظاہرین نے صوبائی حکومت اور پولیس کے خلاف نعرے بازی کی۔ مظاہرے میں حکمران جماعت پاکستان تحریک کے کارکن بھی شامل تھے۔

پشاور کے تہکال اور نواحی علاقوں سے تعلق رکھنے والے مختلف سیاسی جماعتوں کے مقامی رہنماؤں اور کارکنوں نے جمعے کو نمازِ جمعہ کے بعد پشاور یونیورسٹی کے باہر پاکستان اور افغانستان کو ملانے والی شاہراہ پر مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

'پولیس نے اپنا اعتماد کھو دیا'

خیبر پختونخوا کے سابق سیکرٹری داخلہ اور سابق ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس سید اختر علی شاہ نے بھی اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بہت شرمناک واقعہ ہے۔

اُن کے بقول خیبر پختونخوا پولیس نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بہت بڑی قربانی دیگر عوام کا اعتماد حاصل کیا تھا جسے چند افسران اور اہلکاروں نے کھو دیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سید اختر علی شاہ نے کہا کہ خیبر پختونخوا کی روایات کے پیشِ نظر پولیس کا رویہ عوام کے ساتھ کافی مثبت رہا ہے مگر اس واقعے نے اسے غلط ثابت کر دیا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ پولیس کے ترتیب کا نظام اب اعلیٰ پیمانے کا نہیں رہا جو کسی وقت میں تھا۔ پولیس کی نگرانی کا نظام بھی کمزور ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

پولیس اصلاحات کے بارے میں اُنہوں نے کہا کہ قوانین میں بہت اچھی باتیں شامل ہیں مگر اس پر عمل درآمد بہت کمزور ہے۔ پولیس عوام کی جان و مال کا محافظ ادارہ ہے جس پر لوگوں کا اعتماد تب ہو گا جب پولیس برداشت اور صبر سے کام لے گی۔

'پولیس افسران نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا'

پشاور یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ کنفلیکٹ اسٹڈیز کے سابق ڈائریکٹر جنرل پروفیسر ڈاکٹر جمیل چترالی نے کہا کہ سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے لوگوں میں شعور کا فقدان ہے۔

ان کے بقول غربت اور بے روزگاری جیسے مسائل سے بھی لوگ تنگ آ کر منشیات کا استعمال کرتے ہیں اور نشے کی حالت میں ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف دل کا بھڑاس نکالتے ہیں۔ تہکال پشاور کے اس واقعہ میں بالکل وہی ہوا ہے مگر ردعمل میں پولیس افسران اور اہلکاروں نے قانون ہاتھ میں لے کر نہ صرف اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا بلکہ تمام تر انسانی روایات اور اخلاتی اقدار کو بھی پامال کیا ہے۔

ڈاکٹر جمیل نے پولیس کے اقدام کے خلاف سوشل میڈیا پر عوامی ردِ عمل کو مثبت قرار دیا اور کہا کہ اس قسم کے غیر قانونی و غیر اخلاقی اقدام کی حمایت نہیں کی جا سکتی اور اس حوالے سے عوام میں شعور بڑھتا جا رہا ہے۔

انہوں نے مذکورہ واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بے روزگاری اور معاشی مسائل کے باعث نوجوان طبقہ محرومی کا شکار ہو کر ریاست سے بدظن ہوتا جا رہا ہے۔