پولیس کانسٹیبل کی ہلاکت: 'کمال نے ڈیوٹی پر جاتے ہوئے کہا تھا کہ پتا نہیں کب واپسی ہو'

پندرہ برسوں تک پولیس میں خدمات انجام دینے والے کمال احمد کے پانچ بچے ہیں۔

''جب کمال رات کے 12بجے ڈیوٹی پر جا رہے تھے تو میں نے ان سے پوچھا کہ واپس کب آئیں گے تو انہوں نے کہا کہ پتا نہیں کہ کل صبح واپس آتا ہوں یا رات کو۔ جب میں پہلے یہ پوچھتی تھی کہ کب واپس آئیں گے تو وہ کہتے تھے کہ ایک یا دو گھنٹوں میں، لیکن اس بار انہوں نے کہا کہ پتا نہیں کہ کل صبح آتا ہوں یا شام کو۔''

یہ کہنا ہےکانسٹیبل کمال احمد کی اہلیہ رابعہ کا جو منگل کی شام اپنے خاوند کی تدفین کی بعد اپنے بچوں کو سنبھال کر نڈھال بیٹھی تھیں۔ کانسٹیبل کمال پیر اور منگل کی درمیانی شب تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کے خلاف پولیس چھاپے کے دوران ہلاک ہوئے تھے۔

کمال احمد کی ہلاکت پر پولیس کی مدعیت میں درج کردہ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن کے بلاک سی کے ایک گھر کی گھنٹی بجائی گئی ، جس پر ساجد حسین اور ان کے بیٹے عکرمہ بخاری باہر آئے۔ انہیں بتایا گیا کہ پولیس بسلسلہ کرایہ داری سرچ آپریشن کر رہی ہے جس کے جواب میں باپ اور بیٹا دونوں طیش میں آگئے اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے لگے۔

ایف آئی آر کے مطابق ساجد حسین نے اپنے بیٹے عکرمہ بخاری کو للکارا اور کہا کہ پولیس پر سیدھی فائرنگ کرو۔ جس پر عکرمہ نے جان سے مارنے کی نیت سے پولیس پارٹی پر فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں گھر سے باہر کھڑے کانسٹیبل کمال احمد کے سینے پر دائیں جانب گولی لگی اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ساجد حسین ریٹائرڈ فوجی ہیں اور وہ پاکستان تحریک اںصاف کے عہدیدار ہیں۔

کمال احمد کی بیوہ رابعہ کہتی ہیں " کمال کی کمائی سے گھر کے خرچے پورے نہیں ہوتے تھے۔ جس کی وجہ سے انہوں نے صرف اپنے دو بڑے بچوں کو اسکول میں داخل کرایا تھا۔کمال ہی میرا واحد سہارا تھے۔"

رابعہ کے بقول ان کے بچے یہی سمجھ رہے ہیں کہ ان کے والد کام پر گئے ہیں۔

پندرہ برسوں تک پولیس میں خدمات انجام دینے والے کمال احمد کے پانچ بچے ہیں جن میں سب سے بڑی بیٹی کی عمر گیارہ سال جب کہ سب سے چھوٹے بیٹے کی عمر آٹھ ماہ ہے۔

کمال احمد کی بڑی بیٹی عافیہ کا کہنا تھاکہ اس دن ہم سب نے رات کا کھانا اکٹھے کھایا، جس کے بعد وہ سب سو گئے اور رات کو پاپاکو واپس ڈیوٹی پر آنے کی کال آئی۔

عافیہ کے بقول ''جب بھی ٹیسٹ ہوتے تھے وہ پاپا کو دکھاتی تھیں اور اگر ان کے نمبر کم آتے تھے تو پاپا کہتے تھے کہ محنت سے پڑھو گی تو آئندہ کم نمبر نہیں آئیں گے۔''

عافیہ کا کہنا تھا کہ ان کی پاپا سے آخری بات یہ ہوئی تھی کہ انہوں نے پاپا کو کہا تھا کہ ان کا رزلٹ آئے گا اور وہ پہلی پوزیشن لیں گی۔ جس کے جواب میں پاپا نے کہا تھا کہ ہمیشہ ایسے ہی لائق بچی بن کر رہنا۔

کمال احمد کے بھائی عبدالستار کہتے ہیں کہ کمال کو پولیس میں ڈیوٹی کرتے 15 سال ہوگئے تھے۔ اس کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ اپنی ڈیوٹی تھانے میں نہ لگوائے، جہاں ان کے بقول ''رشوت چلتی ہو۔''

عبدالستار کامزید کہنا تھا کہ ماڈل ٹاؤن تھانے میں ڈیوٹی سے قبل کمال سابق گورنر چوہدری محمد سرور کے ساتھ ڈیوٹی کرتا تھا۔ اس کی کوشش ہوتی تھی کہ وہاں ڈیوٹی لگوائے جہاں آٹھ گھنٹے ڈیوٹی کر کے وہ گھر واپس آ سکے۔

عبدالستار نے کہا کہ کمال صبح آٹھ بجے ڈیوٹی پر جاتا تھا اور شام کو واپس آ جاتا تھا اور پیر کی شام کو بھی وہ ڈیوٹی سے واپس آگیا تھا۔ لیکن رات کو ساڑھے 11 بجےانہیں واپس بلا لیا گیا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ کال پر کہا گیا کہ ''رات کو ڈیوٹی پر پہنچیں ،پی ٹی آئی کے بندے پکڑنے ہیں اور نفری کم ہے۔''

ان کے بقول ان کے چھوٹے بھائی کو رات پونے دو بجے کے قریب کال آئی کہ کمال کی طبیعت بہت خراب ہے، فوراً اسپتال پہنچیں۔جس پر جب چھوٹا بھائی یہ سب بتانے اوپروالی منزل پر آیا تو اسی اثنا میں دوبارہ کال آئی کہ وہ فوت ہوگئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کمال زیادہ بات چیت نہیں کرتا تھا بلکہ ڈیوٹی سے آکر گھر سے باہر نہیں نکلتا تھا۔ وہ اپنے بچوں کے ساتھ ہی خوش رہتا تھا ، وہ بغیر کسی وجہ سے ڈیوٹی سے چھٹٰی نہیں کرتا تھا۔

عبدالستار کا مزید کہنا تھا کہ ''ان کے بھائی کمال کی دلی خواہش تھی کہ اسے شہادت کی موت نصیب ہو۔''

سابق وزیراعظم عمران خان نے منگل کو پشاور میں پریس کانفرنس کے دوران پولیس کانسٹیبل کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا تاہم انہوں نے مذکورہ واقعے کو سیلف ڈیفنس یعنی خود کا دفاع کرنا قرار دیا اور کہا کہ ایک ریٹائرڈ فوجی کے گھر میں کوئی دیوار پھلانگ کر آتا ہے تو پہلے تو وہ یہ ہی سمجھے گا کہ کوئی چور یا ڈاکو آگیا ہے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ چوں کہ وہ ریٹائرڈ فوجی ہیں لہٰذا وہ اسلحہ استعمال کرنا جانتے تھے اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔

ادھر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کا صحافیوں سے گفتگو میں کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے عہدیدار نے سیدھی گولی پولیس کانسٹیبل پر چلائی۔ جس سے لانگ مارچ کے مقاصد کے بارے میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش باقی نہیں رہی۔