پشاور میں 'داعش' کے تین عسکریت پسند مارنے کا دعویٰ، باجوڑ میں چار سیکیورٹی اہل کار ہلاک

فائل فوٹو

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کی پولیس نے ایک کارروائی میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ (داعش) کے تین مبینہ دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ادھر باجوڑ اور ہنگو میں جھڑپوں کے دوران پانچ سیکیورٹی اہل کاروں کی ہلاکت کی بھی تصدیق ہوئی ہے۔

پولیس کے مطابق پشاور کے ایک نواحی علاقے میں بدھ کی شب سیکیورٹی اداروں کے مشترکہ آپریشن میں تین مبینہ دہشت گرد مارے گئے بعدازاں ان کا تعلق دولتِ اسلامیہ (داعش) سے بتایا گیا۔

خیال رہے کہ حالیہ عرصے میں خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ادھر بدھ کو باجوڑ اور ہنگو میں نامعلوم عسکریت پسندوں کے حملوں میں پانچ سیکیورٹی اہل کاروں کی ہلاکت کی بھی تصدیق ہوئی ہے۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق بدھ کی شام ضلع باجوڑ میں سرچ آپریشن کے دوران ایک گاؤں میں دیسی ساختہ بم حملے میں چار سیکیورٹی اہل کار ہلاک اور دو شہری بھی زخمی ہو گئے۔

ہلاک ہونے والوں میں دو پولیس اہل کار اور دو کا تعلق فرنٹیئر کور سے تھا۔

باجوڑ کے ضلعی پولیس آفیسر عبدالصمد نے صحافیوں کو بتایا کہ سیکیورٹی اہل کار علاقے میں ایک اور دھماکے کی جگہ کا معائنہ کرنے جا رہے تھے جب ان کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا جو دھماکے کے بعد مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔

باجوڑ حملے کی ذمے داری کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی ہے۔

ہنگو میں سیکیورٹی چیک پوسٹ پر فائرنگ

باجوڑ میں ہونے والے واقعے سے چند گھنٹے قبل جنوبی ضلع ہنگو کے علاقے چھپری میں نامعلوم عسکریت پسندوں نے سیکیورٹی فورسز کی چوکی پر جدید خود کار ہتھیاروں سے فائرنگ کر کے ایک اہل کار کو ہلاک اور چار کو زخمی کر دیا۔ پولیس حکام کے بقول جوابی کارروائی میں دو مبینہ دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا۔

داعش اور کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان کا گٹھ جوڑ

پاکستانی حکام سرحد پار افغانستان میں روپوش شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور داعش کو ایک دوسرے کا اتحادی بتاتے ہیں مگر دونوں جانب سے ابھی تک اس اتحاد کے بارے میں کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ سرحد پار افغانستان میں طالبان کے برسرِاقتدار آنے کے بعد وہاں داعش۔ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان اور دیگر تنظیموں سے منسلک لوگ اب پاکستان کے سرحدی علاقوں میں آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے اب صوبے بھر میں پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کو چوکنا رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مہمند نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ سرحد پار افغانستان میں افغان طالبان نے وہاں موجود داعش اور دیگر تنظیموں سے منسلک دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں شروع کر دی ہیں اور اب یہ لوگ راہِ فرار تلاش کر رہے ہیں۔

اُن کے بقول یہ شدت پسند اب پاکستان کے سرحدی علاقوں میں آ کر کارروائیاں کر رہے ہیں۔

رستم شاہ مہمند کہتے ہیں کہ داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیموں سے منسلک عسکریت پسندوں کو طالبان کسی صورت نہیں چھوڑیں گے۔

البتہ سابق سیکرٹری داخلہ خیبرپختونخوا اور ریٹائرڈ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس سید اختر علی شاہ کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندی سے اب بہت سے لوگوں کا معاش وابستہ ہے۔ لہذٰا جب تک خطے بالخصوص افغانستان میں امن و استحکام نہیں آئے گا، ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔