پشاور پریس کلب کی تقریب میں شریک تین افراد گرفتار، صحافیوں کی مذمت

فائل فوٹو

پشاور پریس کلب کو پولیس نے اس وقت محاصرے میں لے لیا جب وہاں ایک ادبی اور ثقافتی تنظیم کا سیمنار ہو رہا تھا۔ جس کے اختتام پر پولیس نے ایک طالب علم سیمت تین افراد کو گرفتار کر لیا۔ صحافیوں کے حقوق کی کئی سرگرم تنظیموں نے اس اقدام کو صحافتی آزادی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔

صحافتی تنظیموں کے عہدیداروں نے تقریباً سات گھنٹوں تک پریس کلب کے محاصرے کی مذمت کرتے ہوئے وزیر اعلی خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ سے اس واقعہ کا فوری نوٹس لینے اور ذمہ دار اہل کاروں کے خلاف کاروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

پشاور پریس کلب میں پیر کے روز مفکورہ نامی ایک ادبی اور ثقافتی تنظیم نے افغان باشندوں بالخصوص فن و ثقافت اور صحافت کے شعبوں سے منسلک افراد کو درپیش مسائل و مشکلات پر ایک کانفرنس کا انعقاد کیا تھا جس میں مختلف سیاسی جماعتوں اور ادبی اور ثقافتی تنظیموں کے عہدیداروں اور کارکنوں نے شرکت کی تھی۔

کانفرنس کے شروع ہونے سے پہلے ہی پولیس کے درجنوں اہل کاروں نے پریس کلب کو گھیرے میں لے لیا اور جب کانفرنس کے اختتام پر لوگ باہر نکلنے شروع ہوئے تو پولیس نے مفکورہ کے سربراہ اور ادیب حیات روغانی کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔

پریس کلب کے ممبر ناصر داوڑ نے بتایا کہ کانفرنس کے دوران پولیس کے عہدیدار نے انہیں بتایا کہ وہ دو یا تین مطلوب افراد کو کانفرنس ہال سے گرفتار کرنا چاہتے ہیں، مگر پریس کلب میں موجود صحافیوں نے یہ کہتے ہوئے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا کہ پریس کلب کے اندر ہر ایک کو اپنی بات کہنے کی آزادی ہے۔ لیکن اگر یہاں موجود افراد میں سے کوئی شخص کسی جرم میں مطلوب ہے تو پولیس اسے پریس کلب سے باہر گرفتار کر سکتی ہے۔

پولیس کے اہل کار گرفتاریوں کے لیے پشاور پریس کلب کے باہر موجود ہیں۔

پولیس اہل کار سینئر صحافیوں سے مذاکرات کے بعد چلے گئے لیکن پریس کلب کے باہر ان کا محاصرہ جاری رہا۔ جب کہ اس دوران کانفرنس میں شامل کئی افراد گرفتاری سے بچنے کے لیے کئی گھنٹوں تک پریس کلب کے اندر ہی رہے۔

لگ بھگ رات ساڑھے نو بجے پریس کلب کے صدر ملک ارشد عزیز اور دیگر سینئر صحافیوں نے پولیس عہدیداروں کے ساتھ مذاکرات کیے ۔ ناصر داوڑ ن نے بتایا کہ پولیس عہدیداروں نے تین افراد کے نام بتائے جنہیں وہ گرفتار کرناچاہتے تھے۔

ان میں اسلامیہ کالج کا ایک طالب علم دانیال محمد دانش بھی شامل تھا جس کے پریس کلب کے باہر خود گرفتاری پیش کرنا کا فیصلہ کیا۔ دانیال کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں ہے۔ انہیں ابھی معلوم ہوا ہے کہ ان کے بھائی بلال کے خلاف مقدمہ درج ہے اور پولیس بھائی کی جگہ انہیں گرفتار کرنا چاہتی ہے۔

قبائلی ضلع خیبر کے قصبے لنڈی کوتل سے تعلق رکھنے والے آفتاب شینواری نے کہا کہ انہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ انہیں کس جرم میں گرفتار کیا جا رہا ہے ۔

آفتاب شنواری اور دانیال دانش پشاور پریس کلب میں صحافیوں کے سوالات کا جواب دے رہے ہیں۔

پولیس کے اہل کاروں ںے بتایا کہ انہیں گرفتار افراد کو شرقی اور پشتخرہ پولیس تھانوں میں منتقل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

خیبرپختونخوا حکومت یا انسپکٹر جنرل پولیس کی جانب سے ابھی تک اس بارے میں کوئی بیان جاری نہیں ہوا ہے۔

پشاور پریس کلب کے سیکرٹری جنرل عرفان موسی زئی نے بتایا کہ سوموار کو مفکورہ کے زیر اہتمام ہونے والے سیمینار کا مقصد افغان باشندوں بالخصوص افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد پاکستان منتقل ہونے والے صحافیوں، موسیقاروں ، گلوکاروں اور شاعروں کو درپیش مشکلات سے حکومت اور عالمی اداروں کو آگاہ کرنا تھا۔

مفکورہ کے ایک عہدیدار آمین کنڈی نے بتایا حیات روغانی کو رات دیر گئے رہا کر دیا گیا مگر انہوں نے بلا وارنٹ گرفتاری کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔ اسی طرح دیگر دو گرفتار افراد کے رہائی کیلئے بھی کوششیں شروع کر دی گئی ہیں۔