مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے جمعیت علماء اسلام (ف) کے ’آزادی مارچ‘ میں شرکت کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت ہر میدان میں ناکام ہو چکی ہے لہٰذا ملک میں نئے انتخابات ہونے چاہئیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے جمعے کو لاہور میں شہباز شریف سے اُن کی رہائش گاہ پر ملاقات کی جس میں حکومت مخالف احتجاج پر مشاورت کی گئی۔ ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے (ن) لیگ کے صدر نے کہا کہ آزادی مارچ میں شرکت سے متعلق نواز شریف کی ہدایات انہیں بذریعہ خط مل چکی ہیں۔ وہ 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں جلسہ کر کے اپنے مطالبات پیش کریں گے۔
شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان میں آج جو کچھ بھی ہو رہا ہے، وہ حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ملک میں نئے اور شفاف انتخابات ہونے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن کا اسلام آباد میں استقبال کریں گے اور 31 اکتوبر کو ایک بھرپور جلسہ کریں گےجس میں اپنا آئندہ کا لائحہ عمل بھی بتائیں گے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ یہ ایک سلیکٹڈ حکومت ہے اور وزیرِ اعظم بھی سلیکٹڈ ہیں۔ 31 اکتوبر کو پاکستان زندہ باد کہیں گے اور کشمیریوں کی بھر پور حمایت کریں گے۔
خیال رہے کہ شہباز شریف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں قدرے نرم مؤقف رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے اُن پر پارٹی کے اندر اور باہر تنقید بھی ہوتی رہتی ہے۔
جمعے کو اپنی پریس کانفرس میں بھی شہباز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کا نام لیے بغیر کہا کہ اداروں نے سوچا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کارکردگی دکھائے گی لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔
انہوں نے کہا کہ یقیناً اداروں نے پی ٹی آئی اور عمران خان کی بھرپور سپورٹ کی کہ شاید اس سے ملک ترقی کرنا شروع ہو جائے گا۔ یہ شومئی قسمت ہے کہ اِس تاریخی سپورٹ کے باوجود بھی عمران خان بری طرح ناکام ہو چکے ہیں اور اپنی ناکامی کا بوجھ وہ اداروں کے کاندھوں پر ڈالنا چاہتے ہیں۔
شہباز شریف نے مزید کہا کہ اگر اِس طرح کی سپورٹ کسی بھی دوسری حکومت کو ملتی تو پاکستان آج ترقی کی شاہراہ پر اڑان بھر رہا ہوتا۔
شہباز شریف کے بعد جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمٰن میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کے دوران کہا کہ وہ کسی صورت اپنے ’آزادی مارچ‘ سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ وہ یہ مارچ کشمیریوں سے اظہار یک جہتی کے لیے کر رہے ہیں نجانے حکومت کیوں اِس مارچ سے پریشان ہے؟
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ وہ مارچ سے متعلق حکومت سے کوئی بات چیت نہیں کرنا چاہتے۔ انہوں نے دعوٰی کیا کہ تمام حزبِ اختلاف کی جماعتیں اور اُن کے قائدین اِس مارچ میں شریک ہوں گے اور وہ حزب اختلاف کی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کے ساتھ مل کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کریں گے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ حکومت ناجائز بھی ہے اور نا اہل بھی۔ حکومت کے لب و لہجے، زبان اور گفتگو سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس طریقے سے وہ ایک طرف ہم سے مذاکرات کے لیے کمیٹیاں تشکیل دے رہے ہیں اور دوسری طرف وہ ہمیں گالیاں دے رہے ہیں۔ تضحیک، گالیاں، مذاکرات اور سنجیدگی کبھی اکٹھے نہیں ہو سکتے۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت سنجیدہ ہے تو پہلے استعفٰی دے پھر اگلے مراحل کے لیے ہم مذاکرات کر سکتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے آزادی مارچ کے لیے جماعت اسلامی پاکستان کی قیادت سے بھی رابطہ کیا اور حکومتی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ قائداعظم کے رہنماؤں سے بھی ملاقات کی۔
لاہور میں چوہدری شجاعت حسین کے گھر میں ہونے والی ملاقات میں مولانا فضل الرحمٰن نے چوہدری برادران کو آزادی مارچ میں شرکت کی دعوت دی۔
مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ اپنے جائز مطالبات کے لیے احتجاج ہر کسی کا حق ہے لیکن آزادی مارچ کی وجہ سے ایسی صورتِ حال نہیں ہونی چاہیے جو سیاست کے لیے خطرہ ہو۔ چوہدری شجاعت حسین نے مزید کہا کہ سیاست میں مذاکرات کے دروازے بند نہیں ہوتے۔
مولانا فضل الرحمٰن کی لاہور میں سیاسی ملاقاتوں پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اعجاز چوہدری نے مؤقف دیتے ہوئے کہا کہ نام نہاد اپوزیشن، علی بابا اور چالیس چوروں کا ٹولہ ہے۔ مسترد شدہ ٹولہ ایک دوسرے کے ساتھ مخلص نہیں تو عوام سے کیا مخلص ہوگا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اعجاز چوہدری نے کہا کہ شہباز شریف، فضل الرحمٰن کے مارچ میں شرکت کرنے کے بجائے جلسے میں شریک ہونے کا ڈرامہ کر رہے ہیں، وہ صرف بڑھکیں لگا سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے رواں ماہ 27 اکتوبر کو کشمیریوں سے اظہارِ یک جہتی کے لیے آزادی مارچ اور 31 اکتوبر کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں داخلے کا اعلان کیا ہوا ہے جہاں وہ ممکنہ دھرنا دینے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔