وزیرِ اعظم عمران خان نے عوامی شکایات پر مبینہ طور ہر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے والے اعلیٰ عہدوں پر تعینات بیوروکریٹس کے خلاف تادیبی کارروائی کا آغاز کیا ہے جس پر سرکاری افسران میں تشویش پائی جاتی ہے۔
سابق اعلیٰ سرکاری افسران کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم کو اعلانیہ اقدامات کے بجائے کارگردگی کا مظاہرہ نہ کرنے والے افسران کو طلب کر کے بات کرنی چاہیے تھی۔
دوسری جانب شہری حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے وزیرِ اعظم کے اقدام کو سراہتے ہوئے اسے بیوروکریسی کے احتساب کا ذریعہ قرار دیا ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے پاکستان کی بیوروکریسی، یعنی اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے والے سرکاری حکام کو ہدایت کی ہے کہ عوام کو سہولتوں کی فراہمی کے لیے کارکردگی بہتر کریں۔
وزیرِ اعظم نے سرکاری افسران کو یہ ہدایات سیٹیزن پورٹل پر عوامی شکایات کو غیر سنجیدہ لینے اور بر وقت حل نہ کرنے پر کی۔
عمران خان نے غیر تسلی بخش کارکردگی پر سرکاری افسران کے خلاف کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے 263 افسران کو تنبیہہ بھی کی ہے۔
واضح رہے کہ وفاقی کابینہ نے بھی بیورو کریسی کے رویے پر اعتراضات کیے تھے جس پر وزیرِ اعظم نے نوٹس لیا۔
وزیرِ اعظم ہاؤس کے مطابق سیٹیزن پورٹل کے پرفارمنس ڈیلیوری یونٹ کی رپورٹ کے مطابق 1586 افسران میں سے عوامی شکایات بر وقت حل نہ کرنے پر پنجاب بیورو کریسی کے سات ارکان کو شوکاز، 111 سے وضاحت طلب، 833 کو محتاط رہنے کی ہدایت کی گئیں۔ جب کہ 403 کی کارکردگی کو سراہا گیا۔
کارکردگی بہتر کرنے کے لیے اطلاعات، زراعت، ایکسائز اور آب پاشی کے سیکریٹریز اور پنجاب کے 20 ڈپٹی کمشنرز کو مراسلے ، 43 اسسٹنٹ کمشنرز کو شوکاز بھی دیے گئے۔
وزیرِ اعظم عمران خان اس سے قبل کہہ چکے ہیں کہ بیوروکریسی ان کی حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کر رہی۔
نیب کی جانب سے بدعنوانی اور تفتیش کے نام پر سرکاری افسران کو ہراساں کیے جانے کی شکایت پر وفاقی حکومت نے نیب قوانین میں تبدیلیاں کیں۔
مبصرین کے مطابق وزیرِ اعظم کی سرکاری افسران کو بلا خوف کام کرنے کی یقین دہانی اور بیوروکریسی میں سیاسی مداخلت نہ کرنے کے دعوے کے باوجود تحریکِ انصاف کی حکومت کے بیوروکریسی کے ساتھ اچھے مراسم قائم نہیں ہو سکے ہیں۔
پاکستان کی بیوروکریسی کے تحریک انصاف کی حکومت کے بارے میں بعض سنگین نوعیت کے تحفظات سے آگاہ کرنے کے لیے 2019 کے آخر میں وفاقی سیکریٹریز نے فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی تھی۔
پاکستان میں اظہار رائے، میڈیا اور انٹرنیٹ سے متعلق آزادیوں کے دفاع کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی' کی شریک بانی صدف خان کہتی ہیں کہ اگر سرکاری افسران کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے اور اظہار وجوہ کے نوٹس جاری ہو رہے ہیں تو یقینی طور پر شہریوں کے لیے اس میں امید تو نظر آتی ہے اور یہ اچھی خبر ہے کہ سرکاری افسران کا احتساب ہو رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں صدف خان نے کہا کہ سیٹیزن پورٹل نے عام شہریوں کو ایسا پلیٹ فارم ضرور فراہم کیا ہے کہ ان کی مسائل جو عام راستوں سے حل نہیں ہو رہے ہوتے وہ با آسانی رجسٹر کرائے جا سکتے ہیں۔
تاہم وہ کہتی ہیں کہ اس سارے معاملے میں شفافیت دکھائی نہیں دیتی کہ کس قسم کی شکایات تھیں اور کس محکمے کے خلاف تھی جس پر تنبیہہ یا اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کیے گئے۔
Your browser doesn’t support HTML5
صدف خان نے امید ظاہر کی کہ سرکاری افسران کے خلاف اس کارروائی کی وجہ سیاسی نہیں ہو گی اور یہ فقط شہریوں کے مسائل حل نہ ہونے کی بنیاد پر اقدامات کیے گئے ہوں گے۔
اس حوالے سابق وفاقی سیکریٹری تسنیم نورانی کہتے ہیں کہ سیٹیزن پورٹل جیسی کمپیوٹر ایپلی کیشن کا استعمال اچھی چیز ہے۔ لیکن ان اقدامات سے بہتر طرزِ حکمرانی کی توقع رکھنا درست نہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں تسنیم نورانی نے کہا کہ سیٹیزن پورٹل کے یہ نتائج کارکردگی کے جائزے کا ایک پیمانہ تو ہو سکتے ہیں۔ لیکن انہیں عام کرنے سے سرکاری افسران بد دل ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا بہتر طرزِ حکمرانی کے لیے اقدام کرنا درست ہے۔ مگر اس کے لیے اپنایا گیا بقول ان کے موجودہ طریقہ مناسب نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر صوبائی حکومت گورننس چلا رہی ہے تو یہ احکامات وزیرِ اعظم ہاؤس کی جانب سے نہیں آنے چاہیے تھے۔
تسنیم نورانی کے بقول سرکاری افسران کی مدتِ ملازمت، تحفظ کا احساس اور نیب کی طرف سے ہراساں کیے جانے پر تشویش برقرار ہے۔ ایسے میں انہیں ڈرا دھمکا کہ گورننس میں بہتری یا اصلاحات ممکن نہیں ہے۔
سابق نگران وزیرِ اعلیٰ مگر تجزیہ کار کی حیثیت سے پہچان رکھنے والے پروفیسر حسن عسکری کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم نے بیوروکریٹس کے خلاف جو کارروائی کی ہے اس کے بعد سرکاری افسران وزیرِ اعظم ہاؤس سے آنے والے احکامات کو سنجیدگی سے لیں گے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں پروفیسر حسن عسکری کا کہنا تھا کہ عوامی شکایات کا حل گورننس کا ایک حصہ ہے اور اس کی بنیاد پر مجموعی گورننس میں بہتری نہیں ہو پائے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
حسن عسکری کہتے ہیں کہ بیوروکریٹس کے نیب کے حوالے سے تحفظات اپنی جگہ برقرار ہیں۔ کیوں کہ احتساب کے قانون یا طریقہ کار میں تبدیلی نہیں لائی گئی۔
احتساب کے قانون میں عدم تبدیلی کے حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ ہر بیوروکریٹ اقدام لیتے ہوئے گھبراتا ہے۔ کیوں کہ نیب کچھ بھی نہ کرے تو محض الزامات کی بنیاد پر اخبارات میں خبریں شائع کرا کر بدنام کر دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بیوروکریسی بلکہ سیاسی قیادت میں بھی عدم تحفظ کا احساس ہے جسے حکومت کم نہیں کر سکی ہے۔