وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ لانگ مارچ اور احتجاجی دھرنے ان کی حکومت کے شروع کردہ اقتصادی ترقی کے منصوبوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے اور عوام کو اب فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ صرف معاشی ترقی کے خواہاں ہیں۔
پاکستان میں سماجی و اقتصادی ترقی سے متعلق آئندہ ایک دہائی کے لیے اہداف و منصوبوں پر مشتمل پروگرام کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ملک میں فوجی آمریت سے معاشی ترقی ممکن نہیں اور پاکستان کی موجودہ سلامتی و اقتصادی صوتحال کے تناظر میں اس وقت یہ احتجاج درست نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان کو حکومت کی پالیسوں سے اختلاف ہیں تو وہ تحریک انصاف کے رہنما سے اس پر بات کرنا چاہیں گے۔
’’پہلے بتاؤ بھائی قصور کیا ہے حکومت کا، کہ آپ اس طرح سے جو یلغار کر رہے ہو اور یہاں لا رہے ہو انقلاب۔ اس انقلاب کی وجہ کیا ہے، آپ کا ایجنڈا کیا ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ لیبیا و عراق جیسا انقلاب پاکستان میں جمہوریت کی صورت میں موجود ہے اور یہاں حکومتیں ووٹ کے ذریعے آتی اور جاتی ہیں۔
نواز شریف کا یہ بیان ایسے وقت آیا جب اتوار کو ہی پاکستان عوامی تحریک کے ڈاکٹر طاہرالقادری کی سربراہی میں سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ایک اتحاد نے عمران خان کے ساتھ مل کر 14 اگست کو دارالحکومت میں احتجاجی دھرنا دینے کا اعلان کیا۔
حزب اختلاف بیشتر سیاسی جماعتیں ملک میں جمہوری نظام کے جاری رہنے کی حمایت کرتی ہیں، تاہم احتجاج و مظاہرہ کو کسی جماعت کا آئینی و جمہوری حق تسلیم کرتے ہوئے ان جماعتوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ یوم آزادی کے موقع پر احتجاج کرنے والوں کے خلاف طاقت کے استعمال سے اجتناب کرے۔
ادھر عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف گزشتہ عام انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلیوں کی تحقیقات نا ہونے کے خلاف اعلان کردہ احتجاج سے پہلے نواز انتظامیہ سے مذاکرات نا کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔
عمران خان نواز شریف سے وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کر چکے ہیں۔ جسے حکومت میں شامل اعلیٰ عہدیدار مسترد کر چکے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی دوسری بڑی اور صوبہ خیبرپختونخواہ میں حکمران جماعت ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے عمران خان کی جماعت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ ’’خیبر پختونخواہ کس حال میں چل رہا ہے۔ وہاں کون سے بہتری آئی ہے۔ کون سی بے روزگاری کم ہوئی ہے۔ وہاں بجلی پیدا کرنے کی کتنی جگہیں ہیں۔۔۔۔ قوم کے سامنے جو ایجنڈا انھوں نے پیش کیا تھا وہ کہاں ہے۔‘‘
یوم آزادی کے موقع پر حزب اختلاف کے احتجاج کے تناظر میں کئی سیاست دان اور مبصرین اس خدشے کا اظہار کرتے آئے ہیں کہ تصادم کی صورت میں فوج کی بلواسطہ مداخلت یا ملک میں مارشل لا کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے۔
سیاسی تناؤ کی وجہ سے کراچی اسٹاک ایکسچینج میں پیر کی صبح 1000 پوائنٹس کی کمی دیکھی گئی۔