پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دعوت پر آئندہ ہفتے امریکہ کا دورہ کریں گے۔ اطلاعات کے مطابق پاکستانی وفد میں اعلٰی عسکری حکام بھی شامل ہوں گے۔
پاکستان کے سیاسی اور دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کے دورہ امریکہ کا بنیادی ایجنڈا افغان امن عمل ہو گا۔
اگرچہ باضابطہ طور پر وزیراعظم کے ہمراہ واشنگٹن جانے والے وفد کے بارے میں کوئی اعلان سامنے نہیں آیا ہے۔ لیکن اطلاعات کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت حساس ادارے کے سربراہ بھی پاکستانی وفد میں شامل ہوں گے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے گزشتہ دنوں تصدیق کی تھی کہ وزیر اعظم کے دورہ امریکہ کے دوران دونوں ممالک کی عسکری قیادت بھی بات چیت کرے گی۔
پاکستان کے وزیر اعظم ایک ایسے وقت میں امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں جب افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکہ اور طالبان کے مذاکرات فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں۔
عالمی قوتیں خاص طور پر امریکہ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کو منطقی انجام تک پہنچانے میں پاکستان کے کردار کو اہم تصور کرتے ہیں۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اس دورے کا محور بھی افغانستان ہی ہو گا۔
تجزیہ کاروں کے نزدیک دورے کے دوران پاک بھارت کشیدگی، پاک امریکہ تعلقات اور باہمی تعاون کو فروغ دینے پر بھی تبادلہ خیال ہو گا، تاہم امریکی قیادت کی توجہ افغان تنازع کی جانب مرکوز ہو گی۔
'امریکہ 'ڈو مور' کا مطالبہ کر سکتا ہے'
دفاعی امور کے تجزیہ کار لیفٹینینٹ جنرل (ریٹائرڈ) امجد شعیب کا کہنا ہے کہ "وزیر اعظم کے ساتھ امریکہ جانے والے وفد سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس دورے کے دوران سیکورٹی امور اور افغانستان سے متعلق بات ہو گی۔ ان کے بقول پاکستان افغان امن عمل کے ضمن میں کی جانے والی کوششوں اور مشکلات سے امریکی قیادت کو آگاہ کرے گا۔"
امجد شعیب کے مطابق امریکہ افغان امن عمل میں تعاون کے لیے پاکستان پر مزید اقدامات کرنے پر زور دے گا۔ تاہم اس بات کی توقع کم ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ماضی کی سطح پر واپس آ جائیں۔
ان کے بقول "اس دورے میں امریکہ پاکستان کو تجارتی سہولتیں فراہم کر سکتا ہے جس سے پاکستانی معیشت کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ جب کہ دونوں ممالک کے درمیان فوجی تعاون اور امداد کی بحالی پر بھی بات ہو گی۔"
امجد شعیب یہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ دورہ پاک امریکہ تعلقات کو بہتر ضرور بنائے گا تاہم خطے میں امریکہ کی پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی اور اس کا جھکاؤ بدستور بھارت کی طرف ہی رہے گا۔
'پاکستان کولیشن سپورٹ فنڈ کی بحالی چاہتا ہے'
بین الااقوامی امور کے تجزیہ کار ظفر جسپال کا کہنا ہے کہ پاکستان توقع کرے گا کہ کولیش سپورٹ فنڈ کی مد میں ملنے والی رقم کو بحال کیا جائے. "پاکستان اقتصادی اور فوجی تعاون کی بحالی پر زور دے گا جس میں فوجی تربیتی پروگرام کی بحالی بھی شامل ہو سکتی ہے۔
ظفر جسپال کے بقول امریکہ کی یہ خواہش ہو گی کہ پاکستان خطے میں داعش کے ابھرتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لیے تعاون کرے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے چین کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کو واشنگٹن کے ساتھ بھی تعلقات کو بہتر بنانا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ "امریکہ کو بھی یہ احساس ہو گیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات اس نوعیت کے نہیں رہے جب پاکستان امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے تیار رہتا تھا۔"
یاد رہے کہ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے حال ہی میں کہا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعمیری اور تعاون پر مبنی پالیسی سے خطے میں امن و استحکام کے مشترکہ مقصد کا حصول ممکن ہے۔
تجزیہ کاروں کا یہ خیال ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آنے سے پاکستان میں امریکی سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان، صدر دونلڈ ٹرمپ کی دعوت پر 21 سے 23 جولائی کو امریکہ کو دورہ کریں گے جس کے دوران 22 جولائی کو ان کی صدر ٹرمپ سے ملاقات ہو گی۔