وزیرِ اعظم عمران خان آئندہ ماہ چین کا تین روزہ دورہ کریں گے جس میں وہ بیجنگ میں سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں بھی شریک ہوں گے۔ امریکہ اور متعدد مغربی ممالک ان کھیلوں کی تقریبات کے بائیکاٹ کا اعلان کر چکے ہیں۔
بعض مبصرین کے مطابق سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں عمران خان کی شرکت اسلام آباد اور بیجنگ کے تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کی جانب اہم قدم ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب کچھ مبصرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وزیرِ اعظم عمران خان ایک ایسے وقت میں بیجنگ میں سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کریں گے جب امریکہ، برطانیہ اور مغربی ممالک چین میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی وجہ سے ان مقابلوں کے بائیکاٹ کا اعلان کر چکے ہیں۔
واضح رہے کہ چین کے دارالحکومت بیجنگ میں چار سے 20 فروری تک سرمائی اولمپکس ہو رہے ہیں۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار نے جمعرات کو معمول کی پریس بریفنگ کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ وزیرِ اعظم عمران خان چین کے صدر شی جن پنگ کی دعوت پر تین فروری سے چین کا تین روزہ سرکاری دورہ کریں گے اور بیجنگ میں سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کریں گے۔
دفترِ خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار کا مزید کہنا تھا کہ اس دورے کے دوران وزیرِ اعظم عمران خان چین کی قیادت سے پاکستان چین اسٹریٹجک شراکت داری کو مزید مضبوط کرنے کے علاوہ علاقائی اور بین الاقوامی معاملات پر تبادلۂ خیال کریں گے۔
مبصرین سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں وزیرِ اعظم کی شرکت کو چین کے دورے میں علامتی طور پر اہم قرار دے رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان کے سابق سفیر شاہد امین کا کہنا ہے کہ سرمائی اولمپکس کے موقع پر وزیرِ اعظم عمران خان کا چین کا دورہ اہم ہے۔ اس کا محور دونوں ممالک کے تعلقات، سی پیک، خطے میں بدلتی ہوئی صورتِ حال اور افغانستان کا معاملہ ہوگا۔
شاہد امین نے کہا کہ یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب چین اور امریکہ کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس صورتِ حال میں وزیرِ اعظم پاکستان کے دورے کے موقع پر بیجنگ یہ تاثر دینا چاہے گا کہ سرمائی اولمپکس میں مغربی ممالک کے سفارتی بائیکاٹ کے باوجود چین تنہا نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جب امریکہ کی طرف سے پاکستان پر کوئی دباؤ آتا ہے تو پاکستان چین سے رجوع کرتا ہے اور اس کے باوجود کہ عالمی سطح پر چین کو پاکستان کی کوئی اتنی ضرورت نہیں ہے البتہ پھر بھی چین کے لیے پاکستان اہم ہے۔
انہوں نے کہا کہ خطے میں تبدیل ہوتی ہوئی صورتِ حال، چین امریکہ تناؤ اور عالمی سیاست میں ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر میں پاکستان امریکہ کے ساتھ بھی تعلقات بہتر رکھنا چاہیے گا۔
اس حوالے سے بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار حسن عسکری کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم عمران خان کے چین کے دورے پر کافی عرصے سے بات ہو رہی تھی اور اب یہ دورہ سرمائی اولمپکس کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔
حسن عسکری کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کے لیے یہ دورہ اہم ہے اور اس دورے کے دوران چین قیادت کے ساتھ مختلف امور پر براہِ راست بات چیت ہو گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
حسن عسکری نے کہا کہ پاکستان اور چین کے بڑے گہرے تعلقات ہیں اور دوسری جانب پاکستان امریکہ کے ساتھ بھی بہتر سفارتی اور اقتصادی تعلقات برقرار رکھنا چاہتا ہے لیکن اس کے باوجو پاکستان چین سے متعلق امریکہ کی پالیسی سے اتفاق نہیں کرتا۔
ان کا کہنا تھا کہ چین اور امریکہ کے تناؤ کے باوجود پاکستان چین کو امریکہ کے متبادل کے طور پر نہیں دیکھتا بلکہ پاکستان کی اندرونی معاشی ضروریات اور خطے میں تبدیل ہوتی ہوئی صورتِ حال کے وجہ سے پاکستان کو چین کی ضرورت ہے۔ ایک تاثر یہ ہے کہ سی پیک کے بعض معاملات سست روی کا شکار ہیں اور یہ معاملہ بھی وزیرِ اعظم عمران خان کے دورے کے دوران متوقع طور پر زیر بحث آئے گا۔
اگرچہ شاہد امین کا کہنا ہے کہ سی پیک کے تحت کئی مجوزہ منصوبے بشمول کراچی پشاور ریلوے لائن کے منصوے پر عملی طور پر پیش رفت ہونا باقی ہے لیکن پاکستان میں بنیادی ڈھانچے اور توانائی کے منصوبے مکمل ہو چکے ہیں۔ ان کےبقول اگر پھر بھی سی پیک سے متعلق کچھ دشواریاں ہیں تو توقع ہے کہ ان کو وزیرِ اعظم عمران خان کے دورے میں اٹھایا جائے گا۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار حسن عسکری کا کہنا ہے کہ امکان ہے کہ وزیرِ اعظم کے دورہ چین کے دوران، پاکستان سی پیک کی سست روی سے متعلق چین کے شکایات کو دور کرنے کی کوشش کرے گا۔
حسن عسکری کا کہنا ہے کہ انتظامی مسائل کی وجہ سے سی پیک سے جڑے ہوئے بعض معاملات کو حل کرنے میں کچھ مسائل سامنے آتے ہیں اور جب تک پاکستان ان دشوریوں کو دور نہیں کر لیتا ہے چین کا شکایت برقرار رہے گی۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کا یہ چین کا چوتھا دورہ ہوگا جو کہ تین فروری کو شروع ہوگا۔ اس سے قبل انہوں نے اکتوبر 2019 میں چین کا دورہ کیا تھا۔
یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پاکستان نے تجارتی خسارے اور معیشت کو در پیش مشکلات کو حل کرنے کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کر رکھا ہے البتہ پاکستان کی خواہش ہے کہ چین کے سرمایہ کار پاکستان میں سی پیک کے دوسرے مرحلے کے منصوبوں میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کریں ۔
Your browser doesn’t support HTML5
مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ اسی صورت میں ممکن ہو گا جب چین کے سرمایہ کاروں کو در پیش بعض انتطامی مشکلات کو دور کرنے کی طرف پیش رفت ہو گی۔
دوسری جانب پاکستانی حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ وزیرِ اعظم عمران خان چینی سرمایہ کار کمپنیوں کو درپیش انتظامی مشکلات کو دور کرنے کے لیے واضح احکامات دے چکے ہیں۔