چین نے منگل کو امریکہ پر اس وقت اولمپک کی روح کی خلاف ورزی کا الزام لگایا جب بائیڈن انتظامیہ نے اعلان کیا کہ امریکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بیجنگ سرمائی اولمپکس کھیلوں کا سفارتی بائیکاٹ کر رہا ہے۔
انسانی حقوق کے گروپوں نے چین پر نسلی اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگاتے ہوئے اولمپک گیمز کا مکمل بائیکاٹ کرنے پر زور دیا ہے۔ امریکہ کا یہ اقدام ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب دنیا کی ان دو بڑی طاقتوں کے درمیان کشیدگی کی فضا ہے اور چین کی جانب سے امریکہ پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لی جیان نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ بیجنگ گیمز میں "نظریاتی تعصب، جھوٹ اور افواہوں کے ذریعے مداخلت کی کوشش کر رہا ہے۔"
ژاؤ نے کا کہنا تھا کہ بائیکاٹ "اولمپکس چارٹر کے تحت ہونے والی کھیلوں کی سیاسی غیر جانبداری کے اصول کی سنگین خلاف ورزی ہے اور اولمپک کے نصب العین 'زیادہ متحد ہونے' کے خلاف ہے۔"
ژاؤ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ چین "ٹھوس جوابی اقدامات" کے ساتھ ردعمل دے گا، لیکن انہوں نے اس بارے میں کوئی تفصیل نہیں بتائی۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ کا کہنا تھا کہ "امریکہ اپنے طرز عمل کی قیمت ادا کرے گا"۔
پیر کے روز، وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری جین ساکی نے صحافیوں کو بتایا کہ بائیڈن انتظامیہ بیجنگ گیمز میں حصہ لینے والے امریکی کھلاڑیوں کا مکمل ساتھ دے گی، لیکن اس میں شرکت کے لیے اپنے سفارت کاروں یا عہدیداروں کو نہیں بھیجے گی۔
ساکی نے کہا کہ امریکہ کا "بنیادی عزم انسانی حقوق کو فروغ دینا ہے" اور وہ "کھیلوں کی دھوم دھام میں حصہ نہیں ڈالے گا۔"
یہ سفارتی بائیکاٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ بیجنگ کے ساتھ مشکل تعلقات کو مستحکم کرنے اور تجارتی اور سیاسی تنازعات پر سخت موقف برقرار رکھنے کا درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکہ نے چین پر شمال مغربی صوبے سنکیانگ میں مسلم ایغوروں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، ہانگ کانگ میں جمہوری تحریکوں کو دبانے، تائیوان کے خود مختار جزیرے کے خلاف فوجی جارحیت اور مزید ایسے اقدامات کا الزام لگایا ہے۔
دیگر بڑے ممالک نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ آیا وہ اس سلسلے میں امریکہ کی پیروی کریں گے۔
بیجنگ نے امریکہ کی جانب سے کی جانے والی تنقیدوں اور تعزیری پابندیوں کو اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے مذمت کی ہے اور ان امریکی سیاست دانوں پر ویزا کی پابندی عائد کر دی ہے جسے وہ چین مخالف سمجھتا ہے۔
ژاؤ نے امریکہ کو خبردار کیا کہ وہ "کھیلوں کی سیاست کرنا بند کرے" اور بیجنگ سرمائی اولمپکس کو نقصان پہنچانے کے اقدامات کو روک دے، "بصورت دیگر اس سے دونوں ممالک کے درمیان اہم شعبوں اور بین الاقوامی مسائل کے سلسلے میں بات چیت اور تعاون کو نقصان پہنچائے گا۔"
واشنگٹن میں چینی سفارت خانے نے ایک ٹویٹ میں اس اقدام کو مسترد کر دیا ہے۔
سفارت خانے کی ٹوئٹ میں کہا گیا ہے کہ، "درحقیقت، کوئی بھی اس بات کی پرواہ نہیں کرے گا کہ آیا یہ لوگ آتے ہیں یا نہیں، اور اس کا بیجنگ 2022 گیمز کے کامیاب انعقاد پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔"
اقوام متحدہ میں چین کے مشن نے بائیکاٹ کو "خود ساختہ سیاسی مذاق" قرار دیا ہے۔
بیجنگ کی سڑکوں پر لوگ عموعی طور پر امریکی اقدام کو مسترد کرتے نظر آئے۔ "مجھے نہیں معلوم کہ وہ آئیں گے یا نہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ اولمپک گیمز کا تعلق ایک ملک یا دو ملکوں سے نہیں ہوتا"۔ یہ الفاظ تھے ایک کافی شاپ کے ملازم ڈینگ تاؤ کے۔
ایک کاروباری شخص لو ژیاؤلی نے اس بارے میں ایک سوال پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ"کسی ایسے شخص کی طرف سے اس طرح کے تبصرے جنہیں ہم نے کبھی بلایا نہیں، محض ایک مذاق ہے۔ اور مجھے نہیں لگتا کہ اس کا سرمائی اولمپکس کے انعقاد پر زیادہ اثر پڑے گا‘‘ ۔
یہ واضح نہیں ہے کہ امریکہ نے بیجنگ گیمز کے لیے کن عہدیداروں کو بیجنگ بھیجنا تھا۔ تاہم چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ نے پیر کو کہا کہ چین کی طرف سے کسی کو کوئی دعوت نامہ نہیں بھیجا گیا ہے۔
بائیکاٹ سے متعلق خبروں کی اس صورت حال میں، جاپانی وزیر اعظم فومیو کی شیدا نے منگل کو کہا کہ جاپان اپنا فیصلہ "قومی مفادات کے تناظر میں، اولمپک گیمز کی اہمیت اور جاپان کی سفارت کاری کو مدنظر رکھ کر کرے گا۔"
جاپانی چیف کابینہ سیکرٹری ہیروکازو ماتسونو نے کہا ہے کہ عہدیداروں کی شرکت کے بارے میں فیصلہ "مناسب وقت پر کیا جائے گا۔"
ماتسونو نے کہا کہ "جاپان کو امید ہے کہ بیجنگ سرمائی کھیل اولمپک اور پیرا اولمپک گیمز کے اصولوں کے مطابق امن کے جشن کے طور پر منعقد ہوں گے۔"
جنوبی کوریا کی وزارت خارجہ کے ترجمان چوئی ینگ سام نے امریکی فیصلے پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اپنے اتحادی کی جانب سے حکام کو نہ بھیجنے کی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی۔
چوئی کا کہنا تھا کہ جنوبی کوریا کو امید ہے کہ بیجنگ اولمپکس "شمال مشرقی ایشیا اور دنیا میں امن اور خوشحالی میں معاون ثابت ہوں گے اور جنوبی اور شمالی کوریا کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد کریں گے۔"
نیوزی لینڈ نے منگل کو کہا کہ وہ سفارتی سطح پر کھیلوں میں شرکت نہیں کرے گا، لیکن اس نے یہ فیصلہ پہلے ہی سے سفری پابندیوں کے تناظر میں کیا تھا۔
نائب وزیر اعظم گرانٹ رابرٹسن نے کہا کہ ان کے ملک نے اکتوبر میں ہی چین کو حکومتی عہدے دار نہ بھیجنے کے اپنے منصوبوں کے بارے میں بتا دیا تھا۔
آسٹریلیا نے جس کے چین کے ساتھ تعلقات تیزی سے کشیدہ ہو رہے ہیں، ابھی تک یہ نہیں بتایا ہے کہ آیا وہ اولمپکس میں اپنے عہدے داروں کو بھیجے گا یا نہیں۔
ہر اولمپکس میں اعلیٰ سطح کے وفود بھیجنا طویل عرصے سے امریکہ اور دیگر اہم ممالک میں ایک روایت رہی ہے۔ اس وقت کے صدر جارج ڈبلیو بش نے 2008 کے بیجنگ اولمپک سمر گیمز کے افتتاح میں شرکت کی تھی۔ خاتون اول جِل بائیڈن نے اس سال ٹوکیو میں ہونے والے سمر اولمپکس میں امریکی دستے کی قیادت کی۔