دنیا بھر میں روزانہ کروڑوں صارفین سوشل میڈیا پر اپنی پسند کا مواد بغیر تصدیق کے شیئر کرتے رہتے ہیں جب کہ کچھ لوگ تو دوسروں کی تخلیق بھی بغیر اجازت کے لگانے سے دریغ نہیں کرتے۔ ایسا ہی ایک واقع چھ دسمبر کو اُس وقت پیش آیا جب پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے بعض تصاویر شیئر کی گئیں۔
عمران خان نے گلگت بلتستان کی سیاحت کے فروغ کے لیے چار تصاویر شیئر کیں اور کہا کہ یہ خطہ زمین پر میرے پسندیدہ ترین مقامات میں سے ایک ہے۔
عمران خان کے اس ٹوئٹ کو ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے فوٹو جرنلسٹ اسمار حسین نے ری ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ ان تصاویر میں سے ایک اُن کی ذاتی ملکیت ہے جب کہ وزیرِ اعظم نے اسے اجازت کے بغیر اور بنا کسی کریڈٹ کے پوسٹ کیا۔
اسمار حسین نے اس بارے میں وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ عمران خان کی سیاحت کو فروغ دینے کی پالیسی کے مداح ہیں اور گلگت بلتستان پر اُن کی کھینچی گئی تصاویر شیئر کرنے پر مشکور بھی ہیں۔ لیکن اُن کی خواہش تھی کہ تصاویر پر موجود اُن کا نام ہٹایا نہ جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔
اسمار حسین کہتے ہیں، "ہم فوٹو گرافرز پاکستان کی خوبصورتی دنیا کو دکھا رہے ہوتے ہیں لیکن جب ہمیں اس کا صلہ یا کم از کم حوصلہ افزائی نہیں ملتی تو بہت دکھ ہوتا ہے۔"
پاکستان کے وزیرِ اعظم نے اسمار حسین کے علاوہ اسکردو سے تعلق رکھنے والے امتیاز حسین کی بھی ایک تصویر شیئر کی تھی۔
امتیاز حسین کہتے ہیں چند روز قبل ان ایک بنائی گئی ایک تصویر نجی بینک نے بھی اپنے بروشر پر لگائی تھی جس کے خلاف وہ متعلقہ بینک کے دفتر بھی گئے مگر وہاں سے انہیں جواب ملا کہ یہ تصویر سوشل میڈیا پر شیئر ہو چکی ہے۔
امتیاز کے بقول، "میں نے سوچا کہ اس بات کی شکایت وزیرِ اعظم کے شکایات کے لیے قائم سیٹیزن پورٹل پر درج کرائیں لیکن اسی دوران انہوں نے دیکھا کہ خود وزیرِ اعظم عمران خان کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اُن کی بنائی گئی تصویر کسی کریڈٹ کے بغیر شیئر ہو گئی۔
امتیاز حسین کا کہنا کہ پاکستان میں اکثر فوٹوگرافروں کو خود بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اس طرح کے واقعات کی رپورٹ کہاں کرائیں اور قانون کے مطابق کس سے اپنے حق کا مطالبہ کریں۔
مذکورہ فوٹوگرافر کی تصاویر کے بعد عمران خان نے بدھ کو سیاحتی مقام اسکردو کی چند تصاویر شیئر کیں لیکن اس بار ان تصاویر پر اس کے ملکیت رکھنے والوں کے نام موجود تھے جنہیں ہٹایا نہیں گیا۔
وزیرِ اعظم عمران خان کے ڈجیٹل میڈیا کے فوکل پرسن ارسلان خالد کے مطابق عمران خان سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان کا ایک مثبت چہرہ دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں اور وہ ایسی تصاویر شیئر کر کے ملک میں سیاحت کو فروع دینا چاہتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ارسلان کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم نے دانستہ طور پر کسی فوٹوگرافر کے نام کو چپھایا نہیں بلکہ اگر اُنہیں معلوم ہوتا کہ تصاویر کسی فوٹو گرافر کی ہیں تو وہ ضرور انہیں کریڈیٹ دیتے۔
انہوں نے عمران خان کے بدھ کو کیے گئے ٹوئٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بھی کہا کہ وزیرِ اعظم کی شیئر کردہ تصاویر پر لوگوں کی طرف سے اچھا رسپانس آ رہا ہے۔
دنیا بھر میں کسی بھی شخص کے تخلیقی کام کو اس کی اجازت کے بغیر استعمال کرنا خلافِ قانون سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی حقِ اشاعت کا قانون 'پاکستان کاپی رائٹ آرڈینینس 1962' ترمیم شدہ 2000 موجود ہے۔ تاہم اس پر عمل درآمد انتہائی کم ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ شفیق گیگیانی کا کہنا ہے پاکستان میں کاپی رائٹ کا قانون اور اس پر عمل درآمد کے ادارے بھی ہیں لیکن پھر بھی اس طرح کے مسائل سامنے آتے ہیں۔ اُن کے بقول یہ مسئلہ قانونی سے زیادہ آگاہی کا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں لوگوں کے تخلیقی کام کی چوری ہوتی ہے۔ تصاویر تو ایک طرف لوگوں کے لکھے ہوئے پورے آرٹیکل اور ریسرچ تک چوری ہو جاتے ہیں۔
شفیق گیگیانی کہتے ہیں انٹرنیٹ اور جدت کے ساتھ ساتھ کاپی رائٹ کے قانون میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ قانون بہت پرانا ہو چکا ہے اور گزشتہ 20 برس کے دوران انٹرنیٹ نے نئے مسائل کو جنم دیا ہے۔
اُن کے بقول اگر ملک کے سربراہ کے اکاؤنٹ سے اگر ایسی تصاویر شیئر کی جائیں گی جن میں کاپی رائٹ کا خیال نہیں رکھا جائے گا تو باقی عوام میں یہ روایت کی صورت اختیار کر جائے گی اور اس سے نہ صرف فوٹو گرافر بلکہ تخلیقی کام کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔
پشاور ہائی کورٹ کے وکیل ایڈووکیٹ ریاض احمد کا کہنا ہے کہ کسی تخلیقی کام کے حقوق کا دعویٰ دائر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ کام انٹیلکچوئل پراپرٹی آفس کے پاس رجسٹرڈ ہو، بغیر اندراج کے کسی کام کے دعوے کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔
ریاض احمد کا کہنا ہے کہ لوگ اپنی ہر تصویر اور تخلیق کے حقوق کا اندراج نہیں کرا سکتے۔ اس لیے ایسے واقعات میں عدالت میں کیس دائر کر کے ہرجانہ وصول کیا جا سکتا ہے۔