پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان سے ملاقات کرنے والے بلوچ مسنگ پرسنز کے تین رکنی وفد کا کہنا ہے کہ اُنہیں اس بات کی خوشی ہے کہ وزیرِ اعظم نے ان کی بات سنی۔ لیکن اُنہیں مایوسی ہے کہ ملاقات میں کسی بھی لا پتا فرد کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے بلوچ گمشدہ افراد کے جس وفد سے ملاقات کی اس میں وائس آف مسنگ بلوچ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ، لاپتا شہری ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی صاحبزادی سمی بلوچ اور لاپتا شبیر بلوچ کی ہمشیرہ سیمی بلوچ شامل تھیں۔
وفد کی رکن سمی بلوچ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ ماہ اسلام آباد میں ہونے والا دھرنا وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کی اس یقین دھانی پر ختم کیا گیا تھا کہ وزیرِ اعظم انہیں گمشدہ بلوچ افراد کی موجودہ صورت حال سے متعلق آگاہ کریں گے۔ لیکن اُن کے بقول ایسا کچھ نہیں ہوا۔
سمی بلوچ نے کہا کہ اُنہیں اس بات پر مایوسی ہے کہ گمشدہ افراد کی فائل پر آج ہی کام شروع کیا گیا ہے۔
وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے بھی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ ماہ اسلام آباد سے دھرنا اسی یقین دہانی پر ختم کیا گیا تھا کہ ان کے دکھوں میں کمی لائی جائے گی لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔
SEE ALSO: 'سردی میں زمین پر اس امید پہ بیٹھے ہیں کہ وزیر اعظم انصاف دلائیں گے'انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم نے وفد کو یقین تو دلایا ہے کہ گمشدہ افراد کی بازیابی کے معاملے پر آرمی چیف اور فوج کے خفیہ ادارے 'آئی ایس آئی' کے سربراہ سے بات کریں گے۔ لیکن ان کے بقول اس بات سے کیا نتیجہ نکلے گا اور اس میں کتنا وقت لگے گا اس بارے میں کسی نے انہیں کوئی یقین دہانی نہیں کرائی۔
یاد رہے کہ پاکستان میں جبری گمشدگی کے واقعات کے الزامات ملک کے خفیہ اداروں یا دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عائد کیے جاتے ہیں۔ تاہم ان اداروں کی جانب سے ایسے الزامات کی عموماً تردید کی جاتی رہی ہے۔
پاکستان میں 2011 سے لاپتا افراد کے مسئلے کے حل کے لیے ایک کمیشن کام کر رہا ہے اور حال ہی میں وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی کابینہ کی خصوصی کمیٹی بنائی ہے جس کی سربراہی وزیرِ قانون فروغ نسیم کر رہے ہیں۔
گو کہ انسانی حقوق کے کئی عالمی ادارے 'مسنگ پرسنز کمیشن' کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کر چکے ہیں۔ لیکن کمیشن کے اپنے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مسنگ پرسنز کا یہ کمیشن دسمبر 2020 تک چار ہزار سے زائد کیسز نمٹا چکا ہے۔
اسلام آباد میں گزشتہ ماہ دھرنا دینے والے لاپتا افراد کے اہلِ خانہ نے حکومت کو گمشدہ افراد کی فہرستیں فراہم کی تھیں جن میں لگ بھگ 270 افراد کے نام شامل تھے۔
جمعرات کو وزیرِ اعظم آفس میں ہونے والی ملاقات میں انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری بھی شریک تھیں۔ بعدازاں انہوں نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا وزیرِ اعظم نے اپنے پرنسپل سیکرٹری کو ہدایت کی ہے کہ وہ لاپتا افراد سے متعلق ان خاندانوں کو جلد از جلد آگاہ کریں۔
دوسری جانب سمی بلوچ کہتی ہیں حکومت کو گزشتہ ماہ دھرنے کے اختتام پر 13 خاندانوں کے علاوہ 300 لاپتا بلوچ افراد کی ایک اور فہرست بھی فراہم کی گئی تھی اور وزیرِ اعظم سے ہونے والی ملاقات میں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔
ان کے بقول، "گمشدہ افراد کے پیارے مجھے فون کر رہے ہیں لیکن انہیں بتانے کے لیے میرے پاس کچھ نہیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے یہی کہا ہے کہ شیریں مزاری روزانہ کی بنیاد پر انہیں گمشدہ افراد کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کرتی رہیں گی۔
شیریں مزاری کی جانب سے کی جانے والی ٹوئٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جبری گمشدگی کو قابل گرفت جرم بنانے کے لیے قانون سازی جلد سے جلد کی جائے گی۔
اس بارے میں نصراللہ بلوچ کہتے ہیں اب تک صرف یہ باتیں ہی کی جا رہی ہیں اور ان باتوں سے کسی کی تسلی نہیں ہو رہی۔
'لاپتا افراد بازیاب نہ ہوئے تو تمام صوبوں میں متحرک ہوں گے'
گمشدہ افراد کے اہلِ خانہ کے آئندہ کے لائحہ عمل سے متعلق سوال پر نصر اللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ وہ وزیرِ اعظم سے ہونے والی ملاقات کے مثبت نتیجے کا انتظار کریں گے لیکن اگر ایک ماہ تک کسی گمشدہ افراد کی بازیابی عمل میں نہ آئی تو وہ خیبر پختونخوا، سندھ اور پنجاب میں موجود نہ صرف بلوچ افراد کو متحرک کریں گے بلکہ بڑی سیاسی جماعتوں سے رابطہ بھی کریں گے۔
SEE ALSO: 'لاپتا افراد بازیاب نہ ہوئے تو اگلی بار تحریک بھی شروع ہو سکتی ہے'اُن کا کہنا تھا کہ اس بار اگر دھرنا ہوا تو وہ چند خاندانوں کا نہیں بلکہ سینکڑوں افراد اس دھرنے میں شریک ہوں گے۔
یاد رہے کہ گمشدہ افراد کے اہلِ خانہ نے 11 فروری سے 21 فروری تک اسلام آباد پریس کلب اور ڈی چوک پر دھرنا دیا تھا۔ جس میں ان کا مطالبہ گمشدہ بلوچ افراد کی فوری بازیابی تھا۔
یہ دھرنا وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کی اس یقین دہانی پر ختم ہوا تھا کہ وزیر اعظم مارچ کے مہینے میں مسنگ پرسنز کے وفد سے ملاقات کریں گے اور ان افراد کی موجودہ صورتِ حال سے متعلق خاندانوں کو آگاہ کریں گے۔