وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ عسکری اور دیگر ضروریات کے لیے پاکستان کے امریکہ پر انحصار کے دن گزر گئے اور پاکستان پر کسی بھی طرح کی پابندی سے پورے خطے کا استحکام متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ انسداد دہشت گردی کی کوششیں بھی کمزور ہو سکتی ہیں۔
’عرب نیوز‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں وزیر اعظم عباسی نے یہ بات ایک ایسے وقت کہی جب امریکہ کے ساتھ سرد مہری کے شکار پاکستان کے تعلقات میں حالیہ دنوں میں پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے۔
رواں ماہ ہی وزیر خارجہ خواجہ آصف نے واشنگٹن میں اپنے امریکی ہم منصب ریکس ٹلرسن اور دیگر اہم عہدیداروں سے ملاقاتیں کی تھیں، جب کہ رواں ہفتے ہی پاکستانی وزیر داخلہ احسن اقبال بھی امریکہ کے دورے پر روانہ ہو رہے ہیں۔
ایسے میں دفاع اور خارجہ کے امریکی وزرا کے بھی آنے والے دنوں میں پاکستان کے دورے کا بتایا جا رہا ہے۔
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ان کا ملک دہشت گردی کے خلاف دنیا کی جنگ لڑ رہا ہے اور اگر اس میں کوئی ایک ذریعہ ختم ہو جائے تو لامحالہ دوسرے ذرائع کی طرف بڑھنا پڑتا ہے۔
ان کے بقول، پاکستانی افواج امریکی آلات و سامان حرب استعمال کرتی آ رہی ہیں اور اب چینی اور یورپی ذرائع سے بھی سامان حاصل کیا گیا، جب کہ حال ہی میں روس سے حاصل کردہ لڑاکا ہیلی کاپٹر بھی شامل کیے گئے ہیں۔
امریکہ کی طرف سے پاکستان کے لیے اتحادی اعانتی فنڈ کی مد میں دی جانے والی رقم روکے جانے کے علاوہ ایف۔ 16 لڑاکا طیاروں کی خریداری کے لیے زر اعانت نہ دینے کے فیصلے سے کشیدہ ہونے والے تعلقات اس وقت مزید تناؤ کا شکار ہوگئے جب اگست کے اواخر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان اور جنوبی ایشیا کے لیے نئی پالیسی کے اعلان کے دوران پاکستان پر اپنے ہاں مبینہ دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف سنجیدگی سے کارروائی کرنے کا انتباہ کیا تھا۔
دفاعی امور کے سینیئر تجزیہ کار اور پاکستانی فوج کے سابق لیفٹیننٹ جنرل طلعت مسعود کہتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات دونوں ملکوں کے علاوہ خطے میں استحکام کے لیے بھی ضروری ہیں اور اگر ان میں خلیج بڑھتی ہے تو کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہوگا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ امریکی پالیسی یا سوچ میں تبدیلی اور دباؤ کی وجہ سے پاکستان کی پالیسی کی سمت بھی تبدیل ہو سکتی ہے اور باہمی تناؤ دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔
پاکستان یہ کہتا آیا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ان میں مزید فروغ کا خواہاں ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے تحفظات کے باوجود ایسے اشارے بھی ملے ہیں کہ وہ پاکستان کو ساتھ لے کر چلنا چاہتا ہے۔