ناسا کے 'نیو ہورائزن اسپیس پروب' مشن نے منگل کو نظام شمسی کے پار کائنات کی دور دراز وسعتوں میں واقع، پلوٹو کے سیارے کو کامیابی سے تسخیر کرلیا۔ مشن نو برس بعد آج ہی کے روز پلوٹو سے 12500 کلومیٹر کے قریبی فاصلے سے گزرا۔
تحقیقی سائنس دانوں کے مطابق، پلوٹو کی جسامت 1473 میل (یعنی 2370 کلومیٹر) ہے، جو کہ اُس سے کچھ زیادہ ہے، جس کا اب تک اندازہ لگایا جاتا رہا ہے۔ پلوٹو کے قطر کے بارے میں بحث 1930ء سے جاری رہی ہے۔
ناسا کا کہنا ہے کہ خلائی گاڑی کی رفتار 50000 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی۔ پلوٹو کی برفانی دنیا سے گزرتے ہوئے، مشن نے اپنے کیمرے کے زوم لینس سے تصاویر لیں اور ڈیٹا اکٹھا کرنے کا کام انجام دیا۔
بھیجی گئی پہلی تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ پلوٹو پر ناہموار زمین، پہاڑی سلسلہ اور برف موجود ہے۔
جب پہلی تصویر زمین پر ناسا کو موصول ہوئی تو سائنس دانوں کے علاوہ نیچے جمع شائقین کے ایک مجمعے نے، جن کے ہاتھوں میں چھوٹے امریکی پرچم تھے، تالیاں بجا کر اور نعرے بلند کرکے خوشی کا اظہار کیا۔
یہ تصاویر نصف دِن سے زیادہ کی تاخیر کے بعد ناسا کو موصول ہوئیں، جب کہ امریکی خلائی ادارے، ’ناسا‘ میں ’گراؤنڈ کنٹرولرز‘ پروب سے سگنل ملنے کاانتظار کر رہے تھے۔
اس سے قبل، سرکردہ سائنس داں، ایلن اسٹرن نے بتایا تھا کہ ایک میں سے 10000واں امکان ہے کہ ’نیوہورائزن پلوٹو کے گرد متحرک ملبے سے ٹکرا جائے‘، جو ’کئوپر بیلٹ‘ کی کہکشاں کے علاقے میں واقع ہے۔
یہ نظام شمسی کا وہ اَن دیکھا خطہ ہے، جو دمدار تاروں اور دیگر چھوٹی جسامت والی بکھری چیزوں پر مشتمل کائنات ہے۔۔ جسے ’شوٹنگ گیلری‘ کہا جاتا ہے۔
یہ قدرت کی بلندیوں تک پہنچنے والی پہلی انسانی کاوش ہے۔ یہ مشن نو برس بعد پلوٹو کے قریب پہنچا ہے، جس نے نظام شمسی سے ہوتے ہوئے، زمین سے پانچ ارب کلومیٹر کا سفر طے کیا۔ سنہ 2006 میں اس سیارے کو ایک ’بونا سیارہ‘ قرار دیا گیا، جب کہ اس سے پہلے اِسے ایک مکمل سیارہ قرار دیا جاتا تھا۔
سائنس داں کہتے ہیں کہ ’نیو ہورائزن پروب‘ کے تسخیری مشن پر 70 کروڑ ڈالر خرچ آئے۔ ایسے میں جب یہ اپنی منزل مقصود کے قریب جا پہنچا ہے، اِس سے اب تک موصول ہونے والی معلومات اتنی قیمتی ہے جتنی کبھی سوچی نہیں جا سکتی تھی۔