امریکہ میں دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے حملوں میں مسلسل اضافہ

نیویارک میں مشکوک پائپ بم کی اطلاع ملنے کے بعد سی این این کے دفتر کے باہر پولیس اہل کار کھڑے ہیں۔ 24 اکتوبر 2018

ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ میں دائیں بازو کے انتہاپسندوں کی جانب سے حملوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

واشنگٹن کے ایک امریکی تھینک ٹینک سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز یعنی سی ایس آئی ایس کی اس ہفتے شائع ہونے والے ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2017 میں انتہاپسندوں کی جانب سے حملوں کی تعداد میں 2016 کے مقابلے میں دو گنا اضافہ ہوا۔

سی ایس آئی ایس نے اپنی تحقیق میں انتہا پسند حملوں سے متعلق نئے رجحانات کی مثالیں بھی پیش کی ہیں، جن میں پائپ بم کے وہ حملے بھی شامل ہیں جن میں ڈیموکریٹک سیاست دانوں اور صدر ٹرمپ کے ناقدین کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ تھینک ٹینک نے پٹس برگ میں ایک یہودی عبادت گاہ پر حملے کا حوالہ بھی دیا ہے جس میں 11 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

رپورٹ کے مصنف سیتھ جونز نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایسے کئی عوامل ہیں جو انتہائی دائیں بازو کی انتہا پسندی کے ابھار کی وجہ بن رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کی ایک وجہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا، انتہائی دائیں بازو مثال کے طور پر نیو نازی، اور’ خودمختار شہریوں ‘کے گروپس میں بڑھتا ہو ا استعمال ہے۔ دوسرا ان گروپس اور انفرادی لوگوں کے بیرون ملک رابطے ہیں جیسے جرمنی، یوکرین، اٹلی اور برطانیہ وغیرہ۔ خود مختار شہریوں کے گروپ سے وابستہ افراد امریکہ میں حکومت، مذہبی اور سیاسی اہداف پر حملے کرتے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سن 2007 سے 2011 تک دائیں بازو کے انتہا پسند سالانہ پانچ یا اس سے کم حملے کرتے تھے۔ لیکن سن 2012 میں یہ تعداد بڑھ کر 14 ہو گئی اور یہ رجحان 2016 تک برقرار رہا۔

سی ایس آئی ایس کا کہنا ہے کہ سن 2017 میں ان حملوں میں اچانک نمایاں اضافہ ہوا اور یہ تعداد بڑھ کر 31 ہو گئی۔

کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کی موجودہ سیاسی فضا نے بھی ملک میں دائیں بازو کی انتہاپسندی کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

یونیورسٹی آف میری لینڈ نے دہشت گردی سے متعلق ڈیٹا بیس’ گلوبل ٹیرزم ‘ کے اعداد و شمار کے مطابق 2017 میں امریکہ میں 65 دہشت گرد حملے ہوئے، جب کہ ان میں سے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروپس کی جانب سے 37 حملے کیے گئے۔

کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دائیں بازو کے انتہاپسند گروپس سے نمٹنے کے لیے امریکہ کے قانون نافذ کرنے والے اداروں، جن میں ایف بی آئی اور ریاستی اور مقامی ایجنسیاں شامل ہیں، کا ریکارڈ قابل تعریف ہے۔

امریکہ کا محکمہ انصاف بھی مقامی اہل کاروں کو دہشت گردی کی روک تھام کی تربیت فراہم کرتا ہے اور ملک بھر میں اب تک ایک لاکھ 42 ہزار سے زیادہ اہل کاروں کو تربیت فراہم کی جا چکی ہے۔

سن 2016 میں سابق صدر براک اوباما کی انتظامیہ نے انتہا پسند گروپ داعش کے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر انتہا پسندی پر مبنی پیغامات کی روک تھام کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ شراکت داری قائم کی تھی، جس میں گوگل کو بھی شامل کیا گیا تھا تاکہ یوٹیوب اور دوسرے پلیٹ فارموں پر دہشت گردی پر اکسانے والے پیغامات کو روکا جا سکے۔