وکلا کے حملے کے بعد لاہور کا اسپتال جزوی طور پر کھل گیا

فائل فوٹو

لاہور میں بدھ کو وکلا کے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر حملے کے بعد ہونے والی توڑ پھوڑ کے بعد اسپتال کو دو روز بعد مریضوں کے لیے جزوی طور پر کھول دیا گیا ہے۔

پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی صوبہ پنجاب میں دل کا سب سے بڑا اسپتال ہے۔ اسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اسپتال کے شعبہ ادویات کو کھول دیا گیا ہے، جبکہ انتہائی نگہداشت کے وارڈ کو جمعے کی رات تک کھول دیا جائے گا۔

اسپتال کے سربراہ ڈاکٹر ثاقب شفیع نے جمعے کو ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ وکلا نے اسپتال میں توڑ پھوڑ کی تھی جس سے مختلف شعبوں کو نقصان پہنچا تھا۔ البتہ، ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کی کوششوں سے اسپتال کا نظام بحال کر دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب اسپتال میں ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو سیکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ "پی آئی سی کے ڈاکٹر اسی جذبے سے مریضوں کا علاج کریں گے، جیسے وہ حملہ ہونے سے پہلے کرتے تھے۔"

ڈاکٹر ثاقب شفیع کا کہنا تھا کہ آؤٹ ڈور میں مریضوں کو ادویات کی فراہمی شروع کر دی گئی ہے، جبکہ او پی ڈی کو ہفتے کو مکمل طور پر کھول دیا جائے گا۔

'حملہ ایک منظم سازش'

حملے کے بعد وکلا کی گرفتاری پر وکلا تنظیمیں بھی سراپا احتجاج ہیں۔ لاہور میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر حامد خان کا کہنا تھا کہ اس واقعے میں صرف ایک طبقے کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹرز بھی اس واقعے کے ذمہ دار ہیں۔ لہذٰا، اس کی غیر جانبدار اور شفاف تحقیقات ہونی چاہیے۔

حامد خان کا کہنا تھا کہ "واقعے میں خفیہ ہاتھ ملوث ہیں جو وکلا کے خلاف سازش اور مختلف طبقوں کو آپس میں لڑانا چاہتے ہیں۔ لہذٰا، سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل تحقیقاتی کمیشن بنایا جائے جو تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر اپنی رپورٹ دے۔"

حامد خان نے مطالبہ کیا کہ وکلا کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بھی بند ہونا چاہیے۔

واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس شوکت جاوید کا کہنا تھا کہ واقعہ کے ذمہ دار وکلا اور ڈاکٹروں دونوں ہیں۔ دونوں نے اپنی اپنی باری پر طاقت کا مظاہرہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس کو الزام دینا درست نہیں۔ اسپتال کے اندر اگر پولیس طاقت کا بے دریغ استعمال کرتی تو زیادہ نقصان کا احتمال تھا۔

سابق آئی جی پنجاب کہتے ہیں کہ پولیس حکام کا یہ موقف ہے کہ فریقین میں صلح ہو چکی تھی۔ لہذٰا، دوبارہ لڑائی کا خدشہ نہیں تھا۔ ان کے بقول، اس کے باوجود پولیس وہاں تعینات تھی۔ لیکن، وکلا تعداد میں زیادہ تھے جو پولیس اہلکاروں کو دھکیل کر اسپتال میں داخل ہو گئے۔

'بوجھل دل سے کیس کی سماعت کر رہے ہیں'

دریں اثنا، لاہور ہائی کورٹ میں پی آئی سی واقعے میں ملوث وکلا کی رہائی کے لیے دائر چار درخواستوں پر سماعت ہوئی۔

دوران سماعت لاہور ہائی کورٹ کے جج علی باقر نجفی نے اسپتال پر حملے کرنے والے وکیلوں کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ کوئی ایسا کرنے کا سوچ بھی کیسے سکتا ہے۔

وکیل اعظم نذیر تارڑ نے دلائل دیے کہ انتظامیہ نے اس مسئلے کو صحیح طریقے سے ہینڈل نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ گرفتار وکلا کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ڈاکٹرز کی ویڈیو وائرل ہوئی جس سے وکلا میں اشتعال پیدا ہوا۔

جسٹس علی باقر نجفی نے وکیل اعظم نذیر تارڑ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے پروفیشن میں کالی بھیڑیں ہیں۔ ویڈیو وائرل ہونا اسپتال پر حملے کا جواز نہیں۔ آپ کو اندازہ نہیں کہ ہم کس قدر دکھی ہیں۔

عدالت نے گرفتار وکلا کا طبی معائنہ کرانے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 16 دسمبر تک ملتوی کر دی۔

خیال رہے کہ بدھ کو وکلا کے ایک گروہ نے لاہور میں صوبہ پنجاب میں دل کے سب سے بڑے اسپتال پر دھاوا بول دیا تھا۔ وکلا نے اسپتال کے مختلف شعبوں میں توڑ پھوڑ کے علاوہ ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل عملے کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا تھا۔