پاکستان کے وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کا کہنا ہے کہ کراچی میں گزشتہ ماہ حادثے کا شکار ہونے والے طیارے کے کاک پٹ وائس ریکارڈر اور بلیک باکس کی رپورٹ آ گئی ہے۔ حادثے کی تیکنیکی رپورٹ 22 جون کو قومی اسمبلی میں پیش کر دی جائے گی۔
بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صرف 31 جہازوں کے فلیٹ کے ساتھ اتنے حادثات ہمارے لیے باعث ندامت ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ ماضی قریب میں پاکستان میں چھ فضائی حادثات ہوئے لیکن کسی کی بھی درست انکوائری رپورٹ سامنے نہیں آ سکی۔
بھوجا ایئرلائن، ایئر بلو سمیت چترال سے آنے والا پی آئی اے کا اے ٹی آر طیارہ حادثے کا شکار ہوا۔
اُنہوں نے کہا کہ "مجھے حیرانگی ہے کہ 31 جہازوں والے پی آئی اے میں اتنے حادثات کیوں ہوئے۔ ان حادثات کو روکنے کے لیے کسی کے گلے تک ہاتھ لے جانا ہو گا۔ ان حادثات کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔"
غلام سرور خان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کے تمام پائلٹس کا ہر طرح سے ٹیسٹ ہو گا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر پی آئی اے کے 546 ملازمین کی ڈگریاں چیک کرانے پرجعلی نکلیں۔ بعض پائلٹس کی ڈگریاں بھی جعلی تھیں۔
سابقہ حکومتوں نے جعلی ڈگریوں پر پی آئی اے کے پائلٹس اور ملازمین بھرتی کیے۔ اُنہوں نے بتایا کہ پائلٹس کی عالمی تنظیم سے ایک پائلٹ اور تیکنیکی ماہر تحقیقاتی کمیٹی میں شامل کیے جائیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ کرونا کی وجہ سے پی آئی اے کو چھ ارب روپے نقصان ہو چکا ہے۔ دنیا پھر میں ایئر لائنز کو 350 ارب ڈالرز کے نقصان کا سامنا ہے۔
غلام سرور خان کا کہنا تھا کہ برٹش ایئرویز نے اس بحران کے باعث اپنے ملازم نکال دیے لیکن ہم نے اب تک ایک بھی ملازم نہیں نکالا۔ اُن کے بقول پی آئی اے مشکل حالات میں بھی بیرون ملک سے 56 ہزار پاکستانیوں کو واپس لائی۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت بین الاقوامی فلائٹ آپریشن شروع کرنے پر غور کیا جارہا ہے یہ پروازیں 15 جون سے شروع کرنے کی تجویز ہے۔ اس پر صوبوں سے مشاورت کریں گے۔
غلام سرور خان نے یقین دہانی کرائی کہ کراچی طیارہ حادثے میں تباہ اور متاثر ہونے والے گھروں کےنقصان کا ازالہ کیا جائے گا۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے خرم دستگیر نے کہا کہ کراچی طیارہ حادثے میں غلطی کسی کی بھی ہو لیکن ذمہ داری پی آئی اے اور حکومت کی ہے۔
اُن کے بقول وزیراعظم تو بھاشن دیتے تھے کہ کوریا میں کشتی ڈوب گئی تو استعفی آ گیا لیکن طیارہ حادثے پر کس نے استعفی دیا؟ چینی چوری پر کس نے استعفی دیا؟
انہوں نے کہا کہ طیارہ حادثے پر انکوائری کے لیے موجودہ چیئرمین پی آئی اے کے ماتحت جونئیر افسران پر مشتمل تحقیقاتی بورڈ تشکیل دیا گیا ہے اور پائلٹ کو ذمہ دار قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
خرم دستگیر خان نے مطالبہ کیا کہ 22 جون کو انکوائری رپورٹ آئے تو یہ بھی بتایا جائے کہ حادثے کا ذمہ دار کوں ہے۔ اگر پائلٹ ذمہ دار ہے تو پائلٹ ایسوسی ایشن کو بلایا جائے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی رکنِ اسمبلی نفیسہ شاہ نے کہا کہ پی آئی اے حکام ابھی سے پائلٹ کو ذمہ دار قرار دینے کے اشارے دے رہے ہیں۔ 54 سالوں میں 52 جہازوں کے حادثات ہمارے ملک میں ہو چکے ہیں۔ اکثر اوقات پائلٹس کو ذمہ دار قرار دے کر جان چھڑا لی گئی کیوں کہ وہ خود حادثے میں ہلاک ہو جاتا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ ماہ 22 مئی کو پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) کا لاہور سے کراچی آنے والا طیارہ لینڈنگ سے چند لمحے قبل قریبی آبادی پر گر کر تباہ ہو گیا تھا۔
حادثے میں عملے کے آٹھ اراکین سمیت 97 مسافر ہلاک ہو گئے تھے۔ دو مسافر معجزانہ طور پر محفوظ رہے تھے۔