پشاور ہائی کورٹ نےسابق قبائلی علاقوں کے 'ایف سی آر' ٹربیونل کے سنائے گئے 11 فیصلوں کے خلاف دائر اپیلوں پر سماعت کرتے ہوئے ٹریبیونل دوبار تشکیل دینے کا حکم دیا ہے۔ ان اپیلوں میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی مبینہ طور پر نشاندہی کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی اپیل بھی شامل ہے۔
پشاور ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ نے یہ فیصلہ جمعرات کو صحبت خان نامی درخواست گزار کی اپیل پر دیا ہے۔درخواست دہندہ نے سابق قبائلی علاقے کی انتظامیہ کی جانب سے انہیں فرنٹیر کرائمز ریگولیش (ایف سی آر) کے تحت دی گئی سزا کو چیلنج کیا تھا۔
البتہ ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ نے صحبت خان کی اپیل کے ساتھ عدالت میں دائر دیگر 106 اپیلوں اور درخواستوں پربھی نظر ثانی اور انہیں نمٹانے کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے مذکورہ اپیلوں میں سے کم از کم گیارہ اپیلوں یا پٹیشنز پر نظرثانی اور انہیں نمٹانے کے لیے ایف سی آر ٹربیونل کو دوبارہ تشکیل دینے کی ہدایت کی ہےجن میں شکیل آفریدی کی اپیل بھی شامل ہے۔
شکیل آفریدی نے سابق قبائلی علاقے خیبر کے پولیٹیکل ایجنٹ کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔
پشاور ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر اب تک خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے کسی قسم کا رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
البتہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بھائی جمیل آفریدی نے عدالتی فیصلے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عجیب بات ہے کہ قبائلی علاقوں کا وجودہی نہیں ہے تو ا ن کا عدالتی نظام یا ایف سی آر ٹریبیونل کس طرح تشکیل پائے گا اور کیا ان کے فیصلے قابل عمل ہو ں گے یا نہیں۔
SEE ALSO: شکیل آفریدی پر ساہیوال جیل میں تشدد کا الزام، تحقیقات کے لیے عدالت سے رجوعان کے بقول، "ڈاکٹر شکیل گزشتہ 12 برس سے ناکردہ گناہ کی پاداش میں قید ہیں جنہیں جائز انسانی، قانونی اور آئینی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔"
شکیل آفریدی کو پاکستان کے خفیہ اداروں نے 23 مئی 2011 کو اٹک سے گرفتار کیا تھا۔ بعد ازاں ایک برس کے بعد انہیں قبائلی علاقے خیبر کی تحصیل باڑہ کے اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کے دفتر میں پیش کیا گیا اور ان پر الزام لگایا گیا کہ شکیل آفریدی نے کالعدم تنظیم لشکر اسلام کی معاونت کی ہے۔ اس جرم میں انہیں 33 سال قید اور تین لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔
عدالتِ عالیہ نے جمعرات کو اپنے فیصلے میں فوجداری نوعیت کے 89 مقدمات کو سابقہ قبائلی علاقوں کے انتظامی عہدیداروں کے فیصلوں کے خلاف دائر کردہ اپیلوں کو نظرثانی یا نمٹانے کے لیے ضلعی پراسیکیوٹر افسران کو واپس بجھوا دیے ہیں۔
اسی طرح سول نوعیت کے سابقہ قبائلی علاقوں کے انتظامی افسران کے چھ مقدمات کے فیصلوں کے خلاف دائر اپیلوں کو بھی متعلقہ قبائلی اضلاع کے سول یا جوڈیشل عہدیداروں کو نمٹانے اور نظرثانی کے لیے واپس بجھوائے ہیں۔
پشاور ہائی کورٹ کے سینئر وکیل طارق افغان ایڈووکیٹ کہتے ہیں وفاق کے زیرِ انتظام سابق قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد ایف سی آر ٹریبیونل بھی موجود نہیں مگر اب ہائی کورٹ نے ان 106 مقدمات کو نمٹانے کے لیے صوبائی حکومت کو ایف سی ٹریبیونل دوبارہ تشکیل دینے کی ہدایت کی ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ بیشتر مقدمات کے فیصلوں میں ملزمان یا متاثرین کو مبینہ طور پر صفائی یا دفاع کے حق سے محروم رکھا گیا تھا اسی بنیاد پر ہائی کورٹ کے فیصلے میں ملزمان یا متاثرین کے اس حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ برطانوی حکمرانوں نے 1901 میں موجودہ خیبرپختونخوا( شمال مغربی سرحدی صوبہ) کے قیام کے ساتھ ساتھ افغانستان سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں ایف سی آر کا قانون نافذ کیا تھا جس کے تحت قبائلی علاقوں کے انتظامی افسران کو وسیع تر اختیارات حاصل تھے۔ ان اختیارات کے تحت وہ بغیر کسی جرم کے صرف شک کی بنیاد پر قبائلی علاقوں کے لوگوں کو سالہا سال تک جیلوں میں قید رکھ سکتے تھے ۔