پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے پاکستانی خواتین سے شادی کرنے والے افغان باشندوں کو پاسپورٹ جاری کرنے کے حالیہ فیصلے پر قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ عدالتِ عالیہ کے احکامات سے مزید افغان باشندوں کی شہریت کے حصول کی راہ ہموار ہو گی۔
پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس ایس ایم عتیق شاہ اور جسٹس ارشد علی پر مشتمل ڈویژن بینچ نےپیر کو حکم دیا تھا کہ تین ماہ کے اندر پاکستانی خواتین کے افغان شوہروں کو پاسپورٹ جاری کیا جائے۔
عدالت نے جمالہ بی بی، حمیدہ، صائمہ اور قیسی گل کی جانب سے اپنے شوہروں کو پاکستان اوریجن کارڈ کے لیے دائر چار مختلف رٹ پٹیشنز پر فیصلہ جاری کرتے ہوئے درخواستیں نمٹا دی ہیں۔
درخواست گزاروں کے وکیل سیف اللہ محب کاکاخیل نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے سے ہزاروں متاثرہ لوگوں کی مشکلات حل ہونے میں مدد ملے گی ۔
ایڈووکیٹ جمال الدین کہتے ہیں پاکستانی اوریجن کارڈ ( پی او سی) کے حصول کے بعد متعلقہ افراد کو پاکستانی شہریوں جیسی تمام مراعات حاصل ہوجاتی ہیں اور وہ پاکستان کے کسی بھی علاقے میں رہائش پذیر ہونے کے علاوہ جائیداد خرید سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پی او سی کے حصول کے بعد افغان باشندےپاکستانی پاسپورٹ کے حصول کے بھی حق دار بن جاتے ہیں۔ ایسے افراد پاکستان میں آزادانہ کاروبار کر سکتے ہیں اور ان کے بچوں کو ہر قسم کی صحت اور تعلیم کی سہولیات کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔
SEE ALSO: امریکہ میں70 ہزار نئے افغان پناہ گزینوں کی عارضی رہائشی حیثیت خطرے میںایڈوکیٹ جمال الدین کہتے ہیں ان کی کوشش ہے کہ ایسے افغان باشندوں کو پاکستان کی شہریت دلوانے کے لیے عدالت میں درخواستیں دائر کریں جنہوں نے پاکستانیوں کے ساتھ شادیاں کی ہیں۔
انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم اور افغانستان سے ملحقہ قبائلی ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن منظور آفریدی نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور توقع ظاہر کیا ہے کہ اس فیصلے سے ہزاروں خاندانوں کی مشکلات حل ہو جائیں گی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ میں اس نوعیت کی 50 سے 70 درخواستیں زیر سماعت ہیں۔
منظور آفریدی نے کہا کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق رشتہ ازدواج سے منسلک ہونے کے بعد متعلقہ جوڑوں کو دونوں ملکوں کی دہری شہریت دینا چاہیے۔
تاہم ملک بھر بالخصوص خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے بعض سماجی اور سیاسی حلقے افغانستان سے پاکستان ہجرت کرنے والے افغان باشندوں کو مراعات دینے کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی اور افغان باشندے ایک دوسرے کے ساتھ رشتوں میں منسلک ہوچکے ہیں۔ ان میں ایسے جوڑے بھی شامل ہیں جو یورپی ممالک میں آباد ہوچکے ہیں مگر ان کا اب پاکستان آنا جانا مشکل ہوگیا ہے۔