شکیل آفریدی کیس جلد از جلد نمٹانا چاہتے ہیں: پشاور ہائی کورٹ

ڈاکٹر شکیل آفریدی۔ فائل فوٹو

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کی پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کہا ہے کہ وہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کا مقدمہ جلداز جلد نمٹانا چاہتے ہیں۔

پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس نعیم انور پر مشتمل دو رکنی بینچ نے شکیل آفریدی کی سزا کے خلاف اپیل کی سماعت کی۔

درخواست گزار کے وکیل لطیف آفریدی نے سابق قبائلی انتظامیہ(خیبر ایجنسی) کی عدالت کی جانب سے شکیل آفریدی کو سنائی گئی سزا کی تفصیلات عدالت میں پیش کیں۔

استغاثہ کی جانب سے ایڈوکیٹ جنرل شمائل بٹ نے عدالت کو بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ نے حال ہی میں ایک فیصلہ دیا ہے جس میں مختلف مقدمات کی سماعت کا طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ کیس کی سماعت قبائلی اضلاع کے خیبرپختونخوا میں انضمام سے قبل رائج فرنٹیئر کرائم ریگولیشن(ایف سی آر) قوانین کے تحت ہو گی یا پاکستان میں رائج قوانین کے تحت لہذٰا اس سلسلے میں مزید مہلت درکار ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وہ پہلے ہی اس سلسلے میں مہلت دے چکے ہیں اور آج ہی مقدمے کی سماعت مکمل کرنا چاہتے ہیں۔ ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت سے ایک ماہ کی مہلت مانگی تاہم عدالت نے 22 اکتوبر تک سماعت ملتوی کر دی۔

ڈاکٹر شکیل آفریدی کو 2011 میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی امریکی فوج کے خصوصی آپریشن میں ہلاکت کے بعد پاکستانی سیکورٹی اداروں نے پشاور سے گرفتار کیا تھا۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے ملک سے غداری کرتے ہوئے امریکہ کی خفیہ ایجنسی کی مدد کی۔ جب کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی نے ایک جعلی پولیو مہم کے ذریعے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجودگی سے متعلق امریکہ کو آگاہ کیا تھا۔ پاکستان کے خفیہ اداروں کی تحویل میں ایک سال تک رہنے کے بعداسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ خیبرایجنسی کی عدالت نے 2012 میں انہیں 33 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ کمشنر پشاور ڈویژن کی عدالت نے سزا کے خلاف اپیل پر اسے 10 سال کم کر کے 23 سال کر دیا تھا۔

بعدازاں اس مقدمے کو ایف سی آر ٹریبونل میں منتقل کر دیا گیا جو مئی 2018 میں قبائلی اضلاع کے خیبر پختونخوا میں انصمام تک زیر سماعت رہا۔ لیکن اس مقدمے کی اس عرصے میں کوئی سماعت نہ ہو سکی۔ شکیل آفریدی کے وکلا کے مطابق مقدمے کی سماعت شروع ہونے سے قبل ہی نئی تاریخ دے دی جاتی تھی۔ قبائلی اضلاع کے انضمام کے بعد ایف سی آر ٹریبونل میں زیر التوا لگ بھگ ساڑھے چار ہزار مقدمات کو پشاور ہائی کورٹ منتقل کر دیا گیا جن میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کا مقدمہ بھی شامل تھا۔ جہاں ان کی سزا کے خلاف اپیل 24 جون 2019 کو سماعت کے لیے منظور ہوئی۔

امریکی حکام نے مبینہ طور پر ڈاکٹر شکیل آفریدی کی مدد سے اسامہ بن لادن تک رسائی حاصل کی تھی۔

وکیل کا قتل اور کمشنر پشاور کی پراسرار ہلاکت

ڈاکٹر شکیل آفریدی کے وکلا نے 2012 میں قبائلی انتظامیہ کی جانب سے سنائی گئی سزا کے خلاف کمشنر پشاور ڈویژن کی عدالت میں اپیل دائر کی۔ کمشنر پشاور صاحبزادہ محمد انیس الرحمان نے اپیل سماعت کے لیے منظور کر لی۔ نومبر 2013 میں چیف کمشنر اسلام آباد کی پراسرار ہلاکت نے بھی اس مقدمے سے متعلق شکوک و شہبات میں اضافہ کر دیا۔

ڈاکٹر شکیل آفریدی کو سنائی گئی سزا کے خلاف اپیل دائر کرنے والے وکیل سمیع اللہ آفریدی کو نامعلوم افراد نے 17 مارچ 2015 کو پشاور کے علاقے حیات آباد میں فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ سمیع اللہ آفریدی ڈاکٹر شکیل آفریدی کو سنائی گئی سزا کو غیر قانونی قرار دیتے تھے۔ جب کہ وہ متعدد مواقعوں پر شکیل آفریدی پر لگائے گئے الزامات کو من گھڑت قرار دیتے رہتے تھے۔

ڈاکٹر شکیل آفریدی اور پاک، امریکہ تعلقات

امریکہ کی جانب سے مختلف مواقعوں پر ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالا جاتا رہا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اپنی صدارتی مہم کے دوران ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکہ لانے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ پاکستان میں یہ قیاس آرائیاں بھی ہوتی رہی ہیں کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بدلے امریکہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہا کرنے پر رضامند ہے۔ تاہم ڈاکٹر شکیل آفریدی کے معاملے پر پاکستان اور امریکہ کے تعلقات سرد مہری کا شکار بھی رہے۔