پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کی عدالت عالیہ نے مردم شماری کے فارم میں سکھ مذہب کو شامل کرنے کا حکم دیا ہے۔
ملک میں جاری مردم شماری میں مذہب کے خانے میں سکھ مذہب کے پیروکاروں کے لیے علیحدہ سے جگہ رکھنے کی بجائے اسے دیگر مذاہب میں شامل کیا گیا تھا جس پر پاکستان میں آباد سکھ برادری نے شدید احتجاج کیا۔
منگل کو شمال مغربی صوبے میں آباد سکھ برادری نے پشاور ہائی کورٹ میں اس بارے میں درخواست جمع کروائی تھی جس پر بدھ کو چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی دو رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا۔
محکمہ شماریات کی طرف سے عدالت میں پیش ہونے والے عہدیدار نے عدالت کو بتایا کہ اب چونکہ مردم شماری کا عمل شروع ہو چکا ہے لہذا فوری طور پر سکھ مذہب کو فارم میں شامل کرنا مشکل ہوگا۔
اس پر بینچ نے مردم شماری کے دوسرے مرحلے کے لیے فارم میں ضروری ترامیم کرنے کا حکم دیا۔
پاکستان میں 19 سال کے بعد مردم شماری کا آغاز گزشتہ ہفتے ہوا تھا لیکن اس عمل کے شروع ہوتے ہی مختلف حلقوں کی طرف سے شکایات کا سلسلہ بھی سامنے آتا رہا ہے۔
سکھ برادری کا موقف تھا کہ ملک کے مختلف حصوں میں آباد سکھوں کے صحیح اعداد و شمار نہ ہونے کی صورت میں اس برادری کی سماجی و قومی معاملات میں شرکت کا درست تعین نہیں کیا جا سکے گا۔
سکھ برادری کے ایک سرگرم کارکن گرپال سنگھ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں عدالتی فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بحیثیت پاکستانی یہ ایک جائز مطالبہ تھا جسے عدالت نے بھی تسلیم کیا ہے۔
"ہمارے خیال میں پاکستان بھر میں 30 ہزار سے زائد سکھ ہیں اس کے علاوہ مونا سکھ بھی ہیں تو اس بار ہمیں صحیح طور پر پتا چلے گا کہ ہماری برادری کی تعداد کتنی ہے ہم امید رکھتے ہیں جس کے بعد ہمارے جو حق ہیں اس کے مطابق ہمارا کوٹہ بھی بڑھا دیں گے۔"
ملک کے دیگر صوبوں میں بسنے والے سکھوں کی طرف سے بھی ایسی شکایات سامنے آئی تھیں اور صوبہ سندھ کی سکھ برادری نے مردم شماری کے فارم میں اپنے مذہب کا علیحدہ سے تذکرہ کرنے کے بارے میں سندھ ہائی کورٹ میں درخواست جمع کروا رکھی ہے۔