آئی ایم ایف سے رجوع کرنا بہتر آپشن ہوگا: پاکستان بزنس کونسل

فائل

پاکستان میں تجارتی اور معاشی امور سے متعلق غیر سرکاری ادارے پاکستان بزنس کونسل نے عام انتخابات کے بعد آنے والی حکومت کے پہلے 100 دنوں کے لیے ایک اقتصادی ایجنڈا تجویز کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ حکومت کو پاکستان کے بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے اور غیر ملکی ادائیگی کے توازن کو بہتر کرنے کے لیے ایک بار پھر عالمی مالیاتی فنڈ 'آئی ایم ایف' سے رجوع کرنا پڑے گا۔

پاکستان بزنس کونسل کے سربراہ احسان ملک کا کہنا ہے کہ اگرچہ حکومت نے اپنے تجارتی خسارے اور ملکی معیشت کو فوری طور درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مختصر مدت کے کئی اقدامات کیے ہیں، جن میں چین سے ایک ارب ڈالر کے قرضے کی فراہمی اور رواں سال اپریل میں جاری ہونے والی ٹیکس ایمسٹی اسکم شامل ہے۔

منگل کو ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے احسان ملک نے کہا کہ آئندہ حکومت کے لیے ملکی معشت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے ایک بار پھر آئی ایم ایف سے رجوع کرنا ہوگا۔

"اگر کوئی راستہ ہوتا تو اس پر ضرور غور ہوتا۔ لیکن، باقی تمام متبادل آپشن صرف مختصر مدت کے لیے کافی ہیں اگر حکومت آئی ایم ایف سے رجوع کرنا اگر ملتوی بھی کر دے تو چند مہینوں کے لیے گزارہ ہو سکتا ہے۔ چین سے بھی معاونت مل سکتی ہے اور ٹیکس ایمنسٹی سے بھی کچھ پیسا حاصل ہو سکتا ہے۔"

تاہم، احسان ملک نے کہا کہ ہر ماہ پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کی ذخائر میں کمی ہورہی ہے اور اس تناظر میں، ان کے بقول، آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے ساتھ ساتھ آئندہ حکومت کو اقتصادی شعبے میں دورس اصلاحات ایک پروگرام وضع ہوگا۔

بقول اُن کے، "ملک کے صنعتی شعبے کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا۔ ہمیں ’میڈ ان پاکستان‘ کلچر کو فروغ دینا ہوگا۔ اور، آزادنہ تجارت کے وہ معاہدے جو پاکستان کے حق میں نہیں ان کو تبدیل کرنے کے لیے متعلقہ ممالک سے دوبارہ رابطے کرنا ہوں گے، جس طرح اس بابت چین سے بات چیت جاری ہے۔"

احسان ملک کے مزید کہنا ہے کہ ملک میں اس وقت لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے روزگار ہیں جن میں ایک بڑی تعداد نوجوانوں پر مشتمل ہے اور انہیں روزگار فراہم کرنے آئندہ حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔

اُنھوں نے کہا کہ "بے روزگاری کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے ملک میں ہرسال تقریباً 30 لاکھ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے؛ کیونکہ ہرسال تقریباً 20 لاکھ نوجوانوں کو روزگار کی ضرورت ہے۔"

رواں سال مئی کے اواخر میں اپنی مدت پوری کرنے والی حکومت کے سابق وزیر مملکت برائے خزانہ رانا افصل نے پاکستان بزنسں کونسل کے تجویز کردہ معاشی ایجنڈے پر اپنے ردعمل میں کہا حکومت نے کئی معاشی اصلاحات وضع کی جن کے نتائجان کے بقول مستقل میں سامنے آئیں گے۔

رانا افضل نے کہا ہے کہ "پہلی بار ہماری حکومت نے ٹیکس نیٹ ورک کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ محصولات میں دوگنا اضافہ ہوا اور اس ساتھ ساتھ حکومت نےاقتصادی شعبے اصلاحات کے پروگرام کے تحت کئی عملی اقدامات پر بھی کئے گئے‘‘۔

پاکستان میں اقتصادی ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی نئی حکومت کے لیے سب سے بڑا اور اولین چیلنج ملکی معیشت کو بہتری کی راہ پر گامزن کرنے کا ہوگا۔ اگرچہ نگران حکومت ملک کی قتصادی صورت حال کو مستحکم رکھنے لیے فوری نوعیت کے اقدامات کر رہی ہیں۔ تاہم، بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے متعلق معاملات کو طے کرنا آئندہ حکومت ہی طے کر سکے گی۔