پنجاب کے شہر پتوکی کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جسے بعد میں ملک کے ٹی وی چینلز پر بھی چلایا گیا تھا، جس میں شادی ہال میں ایک شخص زمین پر بے سدھ پڑاہوا ہے جب کہ لوگ کھانا کھانے میں مشغول ہیں۔
بعدازاں اس شخص کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ پاپڑ فروش تھا اور اس پر یہ الزام لگا کر بہیمانہ تشدد کیا گیا کہ وہ جیب کترا ہے۔
ریسکیو 1122 کے اہل کاروں نے اس کی جان بچانے کی کوشش کی لیکن وہ جان کی بازی ہار گیا۔
پاکستان کے سماجی حلقوں میں جہاں اس واقعے پر ردِعمل ظاہر کیا جا رہا ہے، وہیں ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے حسی کا عکاس ہے۔
پولیس نے اس واقعے کے بعد شادی ہال کو سیل کرنے کے علاوہ مذکورہ شخص پر تشدد کے الزام میں کچھ افراد کو حراست میں بھی لے لیا ہے۔
مبصرین کہتے ہیں کہ ایسے واقعات ایک دن میں سامنے نہیں آتے بلکہ تعلیم کی کمی، مادیت پسندی، تربیت کا فقدان اور احساسِ محرومی کے باعث سامنے آتے ہیں۔
لاہور کی پنجاب یونیورسٹی کےانسٹی ٹیوٹ آف سوشل اینڈ کلچرل اسٹڈیز کی ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر روبینہ ذاکر سمجھتی ہیں کہ ایسے واقعات اِس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ معاشرتی رویے بدلنا شروع ہو گئے ہیں۔ معاشرے کی اخلاقی قدریں ختم ہونا شروع ہو گئی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نوجوان نسل اور دیگر افراد کی سوچ اور رویوں میں تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے۔
ڈاکٹر روبینہ ذاکر سمجھتی ہیں کہ اِس میں بہت سے عوامل شامل ہیں جن میں تربیت سب سے پہلے آتی ہے اور یہ تربیت گھر سے شروع ہوتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
نور مقدم قتل کیس: جرم سے سزا تک
اُن کے مطابق اَب گھروں میں والدین اپنے بچوں کی تربیت پر پوری طرح توجہ نہیں دے پا رہے۔
معلمہ اور مصنفہ ڈاکٹر عارفہ سیدہ سمجھتی ہیں کہ معاشرہ اس حد تک زوال پذیر ہے کہ ہر شخص کو اپنے سوا کوئی دوسرا نظر نہیں آتا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ جس معاشرے میں تکبر اور غرور ہو، وہاں مار دینا اتنی بڑی بات ہے اور نہ مار دینے کے بعد لاش کو ایک طرف پھینک دینا۔
ڈاکٹر عارفہ سمجھتی ہیں کہ ہاتھ پکڑ کر معاشرتی برائیوں کو نہیں روکا جاتا۔ معاشرے کو اِس احساس سے روکا جاتا ہے کہ وہاں کوئی قانون ہو۔ قانون کی بنیاد اقدار کا تحفظ ہوتی ہے۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ جان لینا صرف خدا کا اختیار ہے جسے لوگوں نے اپنی مرضی سمجھ لیا ہے۔
ڈاکٹر روبینہ ذاکر سمجھتی ہیں کہ جہاں سوشل میڈیا کے فوائد ہیں، وہیں اس کی وجہ سے معاشرے میں اخلاقی اقدار بھی متاثر ہو رہی ہیں اور ان میں نوجوان نسل زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔
ڈاکٹر عارفہ سیدہ کہتی ہیں کہ پاپڑ بیچنے والے کی تو جان لے لی گئی، لیکن اُسے اِس حال تک کس نے پہنچایا اُس سے سوال نہیں کیا جا سکتا۔
ڈاکٹر روبینہ ذاکر سمجھتی ہیں کہ معاشرے میں مستحکم مالی حیثیت کا ہونا ایک بڑا عنصر ہے۔ جو بعض اوقات کچھ مسائل کا باعث بنتا ہے جس سے اچھی مالی پوزیشن کسی کے عیب پر پردہ ڈال دیتی ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ لوگوں کی اکثریت کسی بھی مسئلے کو فوری طور پر اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے اور اسی وقت اُس کا فیصلہ کر کے ہی رہتی ہے۔ اُن کے بقول لوگ قانون کی پاسداری کرنے کے بجائے خود اپنی عدالت لگا لیتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ لوگوں کا دوسرے افراد پر اعتبار کم ہوتا جا رہا ہے جس سے معاشرے میں اخلاقی زوال اور پتوکی جیسے واقعات سامنے آ رہے ہیں۔
پتوکی کے واقعےکا ذکر کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ دیکھنا یہ ہے کہ وہاں موجود لوگوں کی تعلیمی قابلیت کیا تھی اور اُن کی تربیت کس ماحول میں ہوئی ہے۔ لوگ اب دوسروں کے حقوق کے بارے میں نہیں سوچتے۔
Your browser doesn’t support HTML5
کیا ذہنی مریض قیدیوں کو سزائے موت ملنی چاہیے؟
ڈاکٹر روبینہ ذاکر سمجھتی ہیں کہ معاشرے میں بہتر تربیت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ معاشرے میں زیادہ سے زیادہ اخلاقی قدروں کی اہمیت کو بتایا اور سمجھایا جائے۔ مادہ پرستی کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔
ڈاکٹر عارفہ سیدہ کے بقول محض تعلیم سے کچھ نہیں ہوتا جب تک تربیت نہ ہو۔ تعلیم کا معاشرے میں صرف یہ تصور ہے کہ ایک روزگار میسر آ جائے۔
پتوکی کے واقعے سے متعلق اُن کا کہنا تھا کہ اُس کے لیے کوئی الفاظ نہیں ہیں۔ تربیت کا فقدان ہی ہے کہ ہر شخص خود کو درست سمجھتا ہے۔
ہجوم کے ہاتھوں کسی بھی شخص کی ہلاکت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اِس سے قبل پنجاب ہی میں خانیوال، سیالکوٹ اور سرگودھا میں حال ہی میں ہجوم کے ہاتھوں لوگوں کو جان سے مارنے کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔