بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے محکمہ داخلہ نے جمعے کی سہہ پہر ایک ایڈوائزری جاری کی جس میں وادی میں موجود سیاحوں اور کشمیر کی پہاڑیوں میں واقع ہندوؤں کے مقدس مقام امرناتھ غار کی یاترا پر آئے ہوئے یاتریوں کو دورہ مختصر کر کے جلد از جلد واپس جانے پر زور دیا گیا۔
محکمہ داخلہ کے مطابق یہ ایڈوائزری کشمیر میں پائی جانے والی امن و عامہ کی صورتِ حال اور دہشت گردی کے خدشے کے پیش نظر جاری کی گئی ہے۔
ہفتے کو علی الصبح سیاح اور یاتری وادی کے ہوٹل اور دوسرے مہمان خانے خالی کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ مختلف فضائی کمپنیوں نے بھی ہفتے اور اتوار کو نئی دہلی اور جموں کے لیے خصوصی پروازیں چلانے کا اعلان کیا ہے۔ سیاحوں اور یاتریوں کی ایک بڑی تعداد سڑک کے راستے جموں کی طرف روانہ ہوچکی ہے۔
محکمہ داخلہ کے جاری اعلامیے سے وادی میں پائی جانے والی کشیدہ صورتِ حال میں اضافہ ہوا ہے۔ جمعے کی شب خوف و ہراس کی فضا میں مقامی لوگوں نے بازاروں کا رُخ کیا جبکہ اشیائے خور و نوش سمیت دیگر چیزوں کی غیر معمولی خریداری کی۔
پیٹرول پمپس پر ایندھن کے حصول کے لیے گاڑیوں کی لمبی قطاریں دیکھی گئیں جبکہ بینکوں کے اے ٹی ایم میں بھی رقوم جلد ختم ہو گئی تھی۔
Panic in #Kashmir pic.twitter.com/DeCtwunDdL
— Fahad Shah فهد شاه (@pzfahad) August 2, 2019
ریاست بالخصوص مسلم اکثریتی علاقوں میں گزشتہ ایک ہفتے سے شدید خوف و ہراس پایا جارہا ہے جس کی وجہ بھارتی حکومت کی طرف سے ریاست میں ہزاروں کی تعداد میں اضافی فورسز بھیجنے کا اعلان ہے۔ ان فورسز میں وفاقی آرمڈ پولیس فورسز اور نیم فوجی دستے شامل ہیں۔
مقامی انتظامیہ اور مختلف سرکاری ایجنسیوں کی طرف سے ایک کے بعد دوسرے ہنگامی نوعیت کے اعلانات کی وجہ سے کشمیر میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ریاست میں افواہوں اور قیاس آرائیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے جبکہ شہری مختلف خدشات کا اظہار بھی کر رہے ہیں-
Complete chaos on the streets of Srinagar. People rushing to ATMs, petrol pumps & stocking up on essential supplies. Is GOI only concerned about the safety of yatris while Kashmiris have been left to their own devices?
— Mehbooba Mufti (@MehboobaMufti) August 2, 2019
افواہیں ، قیاس آرائیاں اور خدشات
سب سے زیادہ پھیلنے والی افواہ یہ ہے کہ بھارتی حکومت آئین کی دفعہ 35-اے کو ایک صدارتی فرمان کے ذریعے منسوخ کرا رہی ہے۔
واضح رہے کہ دفعہ 35-اے کے تحت بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں زمین اور دوسری غیر منقولہ جائیداد خریدنے، سرکاری نوکریوں اور وظائف، ریاستی اسمبلی کے لیے ووٹ ڈالنے اور دوسری مراعات کا قانونی حق صرف اس کے مستقل باشندوں کو حاصل ہے۔
اس آئینی شِق کے تحت جموں و کشمیر کے قدیم باشندوں کے لیے خصوصی حقوق اور استحقاق کا تعین کرنے کا اختیار ریاستی قانون ساز اسمبلی کو حاصل ہے-
بھارت کے آئین کی دفعہ 370 کے تحت ریاست جموں کشمیر کو یونین میں ایک خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ دفعہ 35 آئینِ کی ایک اور دفعہ 370 کی ذیلی شِق ہے۔ بھارت کی سپریم کورٹ میں دفعہ 35-اے کے خلاف کئی درخواستیں زیرِ سماعت ہیں-
As the holy month of ZilHajj begins &Eid approaching,situation developing after the advisory to Amarnath Yatris/tourists in Kashmir extremely concerning.Govt should speak up.Appeal People to take courage and not panic.If there is something as in past we will face it collectively.
— Mirwaiz Umar Farooq (@MirwaizKashmir) August 2, 2019
بعض سیاسی جماعتوں کی طرف سے یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ ریاست کے مسلم اکثریتی کردار کو ختم کرنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔ دفعہ 35-اے کی منسوخی کی صورت میں ریاست میں غیر مسلم افراد کو بسانے کی راہ ہموار ہوگی۔
استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتیں یہ الزام لگا رہی ہیں کہ بھارت کشمیری مسلمانوں کے ساتھ وہی عمل دہرانا چاہتا ہے جو اسرائیل نے فلسطینیوں کو اُن کے گھروں اور زمینوں سے بے دخل کرنے کے لیے کیا ہے۔ جبکہ بھارتی حکومت اس طرح کے الزامات کو رد کرتی ہے۔
حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) اور ہم خیال سیاسی جماعتوں کا یہ موقف ہے کہ دفعہ 370 اور دفعہ 35-اے عارضی دفعات ہیں ان دفعات کو آئین اور قانونی کے تقاضوں کے برخلاف پارلیمان سے منظوری کے بغیر آئین میں شامل کیا گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان جماعتوں کے مطابق دفعہ 370 ریاست کے بھارت میں مکمل انضمام کی راہ میں حائل ہے جبکہ دفعہ 35-اے تعصب اور امتیازی سلوک کا موجب بنی ہوئی ہے۔
خیال رہے کہ بھارت کے حالیہ عام انتخابات میں بی جے پی نے ان دونوں آئینی دفعات کو ختم کرنے کو اپنا اہم انتخابی مدعا بنایا تھا۔
ریاست تین حصوں میں تقسیم؟
کشمیر میں جو دوسری افواہیں زیر گشت گردش ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مرکزی حکومت ریاست کو تین حصوں میں تقسیم کرنے والی ہے–وادیء کشمیر کو جموں اور لداخ سے الگ کرکے اس کا انتظام فوج کے حوالے کیا جائے گا۔
لداخ کو وفاق کا زیرِ انتظام علاقہ قرار دیا جائے گا جبکہ جموں میں بڑے پیمانے پر انتظامی رد و بدل کرکے اسے ایک الگ ریاست بنایا جائے گا۔
بعض لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ فوج اور فضائیہ لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے پار پاکستانی کشمیر میں ایسے مقامات اور ٹھکانوں کو ہدف بنانے کی تیاری کر رہی ہے جنہیں بھارت دہشت گردی کے لانچنگ پیڈز سمجھتا ہے۔
یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے سیاسی قائدین، کارکنوں، تحریکِ مزاحمت کے نظریاتی ہمدردوں اور عسکریت پسندوں اور ان کے حامیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا جا رہا ہے۔
Amid chaotic #Kashmir, Mayor of Srinagar @Junaid_Mattu’s vehicle is not being allowed to pass. Listen in. pic.twitter.com/4cQHIfh3DQ
— Fahad Shah فهد شاه (@pzfahad) August 2, 2019
جمعے کو وادی میں یہ افواہ بھی پھیلی کہ بھارت کی جیل میں قید ایک معروف کشمیری رہنما کی موت ہو گئی ہے۔
'تمام افواہیں بے بنیاد'
ریاست کے گورنر ستیہ پال ملک نے تمام افواہوں کو بے بنیاد قرار دے کر ایک مرتبہ پھر عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کو اہمیت نہ دیں جبکہ معمول کا کام جاری رکھیں۔
جمعے کی شب ریاست کی سابق وزیرِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی، چئرمین جموں و کشمیر پیپلز کانفرنس سجاد غنی لون، مذہبی رہنما مولوی عمران انصاری، سابق بیورو کریٹ اور جموں کشمیر عوامی تحریک کے رہنما شاہ فیصل نے گورنر ہاؤس میں ستیہ پال ملک سے ملاقا کرکے خدشات سے آگاہ کیا۔
گورنر نے انہیں یقین دلایا ہے کہ ریاست میں زیر گردش افواہوں اور خدشات میں کوئی صداقت نہیں۔
بعد ازاں گورنر ستیہ پال ملک کے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ سیاحوں اور امر ناتھ یاتریوں کو اس لیے دورہ مختصر کرنے کا مشورہ دیا گیا کیونکہ خفیہ اداروں کو مصدقہ اطلاعات ملی ہیں کہ عسکریت پسند امرناتھ یاترا پر بڑا حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
گورنر کے مطابق محکمہ داخلہ نے اسی پس منظر میں ایڈوائزری جاری کی ہے۔ انہوں نے ریاست میں اضافی فورسز کی تعیناتی امن عامہ کی ضروریات کے پیشِ نظر قرار دی۔
بھارت کی مرکزی حکومت یا کشمیر کے گورنر کی طرف سے ریاست میں بری فوج اور فضائیہ کو 'ہائی آپریشنل الرٹ' پر رکھنے کے جواز کے بارے میں کوئی بیان سامنے آیا۔
مختلف ہنگامی نوعیت کے احکامات کے محرکات پر بھی کسی اعلیٰ عہدیدار کا مرکز کی طرف سے موقف سامنے نہیں آیا۔ نیز بھارت کی حکومت نے دفعہ 35-اے کے بارے میں پیدا شدہ خدشات پر بھی کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا۔
بھارت کے ذرائع ابلاغ کی بعض رپورٹس کے مطابق نئی دہلی یہ خدشہ ظاہر کر رہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی کامیابی کے بعد ممکن ہے کہ بعض طالبان پُرتشدد کارروائیوں کے لیے کشمیر کا رخ کریں-
غیر واضح صورتِ حال کی وجہ سے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں کشیدگی اور تذبذب کی کیفیت برقرار ہے۔