فلسطین میں صدر ٹرمپ کے امن منصوبے کے خلاف احتجاج
صدر ٹرمپ کے مجوزہ امن معاہدے کے تحت غیر منقسم یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت ہو گا اور ابو دیس فلسطین کا دارالخلافہ کہلائے گا۔ امن منصوبے کے تحت اسرائیل اور فلسطین کے درمیان کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو سرحد کا درجہ حاصل ہو گا۔
اسرائیل اور فلسطین دونوں ہی یروشلم کے دعوے دار ہیں۔ منصوبے کے تحت کسی بھی اسرائیلی یا فلسطینی کو اُس کے گھر سے بے دخل نہیں کیا جائے گا۔ لہذٰا 1967 کے بعد فلسطینی علاقوں میں قائم کی گئی یہودی بستیاں جنہیں اقوامِ متحدہ غیر قانونی قرار دیتی ہے۔ امریکہ نے اسے باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا ہے۔
یاد رہے کہ انیسویں صدی تک فلسطین میں یہودیوں کی کل آبادی پانچ فی صد کے لگ بھگ تھی۔ فلسطین کا دارالحکومت بیت المقدس تھا۔ بیت المقدس کو اسرائیلی یروشلم کہتے ہیں اور یہ مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں تینوں مذاہب کے ماننے والوں کے لیے مقدس شہر سمجھا جاتا ہے۔
تاہم اسرائیل نے مختلف عرب ممالک بشمول مصر کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کیے ہیں۔ 1967 کی جنگ کے بعد اسرائیل کی جانب سے مشرقی یروشلم اور غرب اُردن میں یہودی بستیوں کے قیام کو امریکہ پہلے غیر قانونی سمجھتا تھا۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ اب ان اقدامات کو غیر قانونی تصور نہیں کرتی۔
فلسطینی انتظامیہ کا یہ مؤقف رہا ہے کہ اسرائیل کو ان علاقوں سے دست بردار ہونا پڑے گا۔ کیوں کہ اس کے بغیر دو ریاستی حل قابل عمل نہیں ہو سکتا۔