امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی مالیاتی مشکلات فلسطین اور اسرائیل دونوں کی سلامتی کے لیے نقصان کا باعث بن سکتی ہیں۔
اسرائیل نے گزشتہ ماہ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے بین الاقوامی جرائم کی عدالت میں شمولیت کی کوششوں کے بعد اس کے ٹیکس محصولات روک رکھے ہیں۔
کیری نے کہا کہ اپنے محصولات کے بغیر فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی پر تعاون یا تو روک سکتی ہے یا اسے بالکل ختم بھی کر سکتی ہے۔
وزیر خارجہ نے یہ بات ہفتہ کو برطانوی وزیر خارجہ فلپ ہیمنڈ سے لندن میں ملاقات سے پہلے صحافیوں سے گفتگو میں کہی۔ انہوں نے برطانوی وزیر خارجہ سے ملاقات میں ایران کے جوہری پروگرام، داعش مخالف جدوجہد ، روس اور علیحدگی پسندوں کی طرف سے یوکرین میں ہونے والے تازہ ترین عارضی جنگ بندی معاہدے کی "سنگین" خلاف ورزیوں پر گفتگو کی۔
جب فلسطینی اتھارٹی نے جرائم کی بین الاقوامی عدالت میں شمولیت کے لیے اقوام متحدہ میں دستاویزات جمع کروائی تو اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر ریاض منصور نے اس کو ’’نہایت اہم اقدام‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ فلسطینی عوام کے خلاف ہونے والے جرائم کے متعلق انصاف حاصل کرنے کے لیے ضروری تھا۔
ان دستاویزات کو پیش کرنا آئی سی سی میں فلسطین کی شمولیت کے لیے ایک آخری رسمی کارروائی ہے اور اس عمل کے لیے کم از کم 60 دن درکار ہوں گے۔
فلسطین کے صدر محمود عباس نے ان دستاویزات پر دستخط اقوام متحدہ کی طرف سے ایک مسودہ قرار داد کے مسترد ہونے کے بعد کیے جس میں اسرائیل کی طرف سے 1967ء کی جنگ میں قبضے میں لیے گئے علاقوں میں فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے تین سال کی ڈیڈلائن تجویز کی گئی تھی۔
اسرائیل نے اس کے ردعمل میں فلسطین کے 12 کروڑ پچاس لاکھ ڈالر کے ٹیکس محصولات کو منجمد کر دیا تھا۔ فلسطین کو اسرائیل کی طرف سے ہر مہینے فراہم کی جانی والی رقم سے حکومتی اخراجات اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ یورپی یونین اور امریکہ دونوں نے اسرائیل کی اس فیصلے پر تنقید کی۔