بینچ میں شامل جج نے عرفان قادر سے استفسار کیا کہ اس مقدمے کی سماعت شروع ہوئے 10 دن ہو چکے ہیں اور اُنھوں نے اس بارے میں پہلے کیوں اعتراض نہیں کیا۔
پاکستان کی سپریم کورٹ میں توہین عدالت کے نئے قانون کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران جمعرات کو اٹارنی جنرل عرفان قادر نے پانچ رکنی بینچ میں شامل چار ججوں پر متعصب ہونے کا الزام لگایا ہے۔
اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل کے آغاز سے قبل ہی الزام لگایا کہ توہین عدالت کے مقدمے کی کارروائی ’’بظاہر یکطرفہ طور پر کی جا رہی ہے۔‘‘
لیکن بینج کے سربراہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ اٹارنی جنرل اس مقدمے کی سماعت میں عدالت کی معاونت کرنے کی بجائے عدلیہ کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پانچ رکنی بینچ میں شامل جسٹس جواد ایس خواجہ نے اٹارنی جنرل کے الزام پر ان سے استفسار کیا کہ اس مقدمے کی سماعت شروع ہوئے 10 دن ہو چکے ہیں اور اُنھوں نے اس بارے میں پہلے کیوں اعتراض نہیں کیا۔
عدالت نے اٹارنی جنرل عرفان قادر سے کہا کہ انھیں ان چار ججوں کے نام اور ان پر اعتراض کی وجوہات تحریری طور پر بینچ کے سامنے پیش کرنا ہوں گی۔
چیف جسٹس اور جسٹس جواد ایس خواجہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ آپ نے بینچ کی تشکیل پر اعتراضات اٹھائے ہوں۔‘‘
چیف جسٹس افتخار چودھری نے کہا کہ اس سے قبل بھی مختلف مقدمات میں بینچوں کی تشکیل پر اٹارنی جنرل اعترضات اٹھا چکے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ انھوں نے حقیقی نہیں بلکہ ظاہری تعصب کا ذکر کیا ہے۔
اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ بظاہر تعصب کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔
توہین عدالت کے نئے قانون پر دلائل جاری رکھتے ہوئے عرفان قادر نے کہا کہ عدالت عظمیٰ براہ راست ان درخواستوں کی سماعت نہیں کر سکتی اس لیے اس معاملے کو متعلقہ ہائی کورٹس میں بجھوا دیا جائے لیکن عدالت نے ان کے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا۔
عرفان قادر نے کہا کہ نئے قانون میں عدلیہ کے اختیارات اور آزادی پر کوئی قدغن نہیں لگائی گئی ہے۔
آئندہ سماعت جمعہ کو ہوگی۔
اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل کے آغاز سے قبل ہی الزام لگایا کہ توہین عدالت کے مقدمے کی کارروائی ’’بظاہر یکطرفہ طور پر کی جا رہی ہے۔‘‘
لیکن بینج کے سربراہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ اٹارنی جنرل اس مقدمے کی سماعت میں عدالت کی معاونت کرنے کی بجائے عدلیہ کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پانچ رکنی بینچ میں شامل جسٹس جواد ایس خواجہ نے اٹارنی جنرل کے الزام پر ان سے استفسار کیا کہ اس مقدمے کی سماعت شروع ہوئے 10 دن ہو چکے ہیں اور اُنھوں نے اس بارے میں پہلے کیوں اعتراض نہیں کیا۔
عدالت نے اٹارنی جنرل عرفان قادر سے کہا کہ انھیں ان چار ججوں کے نام اور ان پر اعتراض کی وجوہات تحریری طور پر بینچ کے سامنے پیش کرنا ہوں گی۔
چیف جسٹس اور جسٹس جواد ایس خواجہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ آپ نے بینچ کی تشکیل پر اعتراضات اٹھائے ہوں۔‘‘
چیف جسٹس افتخار چودھری نے کہا کہ اس سے قبل بھی مختلف مقدمات میں بینچوں کی تشکیل پر اٹارنی جنرل اعترضات اٹھا چکے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ انھوں نے حقیقی نہیں بلکہ ظاہری تعصب کا ذکر کیا ہے۔
اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ بظاہر تعصب کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔
توہین عدالت کے نئے قانون پر دلائل جاری رکھتے ہوئے عرفان قادر نے کہا کہ عدالت عظمیٰ براہ راست ان درخواستوں کی سماعت نہیں کر سکتی اس لیے اس معاملے کو متعلقہ ہائی کورٹس میں بجھوا دیا جائے لیکن عدالت نے ان کے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا۔
عرفان قادر نے کہا کہ نئے قانون میں عدلیہ کے اختیارات اور آزادی پر کوئی قدغن نہیں لگائی گئی ہے۔
آئندہ سماعت جمعہ کو ہوگی۔