بیورو آف انویسٹیگیٹوو جرنلزم میں ڈرون ریسرچ یونٹ کی سربراہ ایلس رَوس کے مطابق نگرانی میں اضافے، سیاسی دباؤ اور حملوں میں کمی شہری ہلاکتوں میں کمی کی وجہ ہوسکتی ہے۔
ایک تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ سال پاکستان میں ہونے والے مشتبہ امریکی ڈرون حملوں میں صرف چار شہری ہلاک ہوئے جو کہ 2004ء میں شروع ہونے والی ڈرون کارروائیوں میں سب سے کم شہری ہلاکتیں ہیں۔
یہ بات برطانیہ میں قائم تنظیم بیورو آف انویسٹیگیٹوو جرنلزم کی طرف سے جاری کی گئی۔
تنظیم نے یہ رپورٹ 27 ڈرون حملوں کے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے جمع کی گئی اخباری معلومات اور تحقیقات کی روشنی میں ترتیب دی۔ اس کے مطابق 2013ء میں پاکستان کے دور افتادہ قبائلی علاقوں میں ہونے والے ڈرون حملوں میں 112 سے 193 کی تعداد میں لوگ مارے گئے۔
بیورو میں ڈرون ریسرچ یونٹ کی سربراہ ایلس رَوس کے مطابق نگرانی میں اضافے، سیاسی دباؤ اور حملوں میں کمی شہری ہلاکتوں میں کمی کی وجہ ہو سکتی ہے۔
’’ڈرون کارروائیوں کی نگرانی سے متعلق شفافیت میں کمی کی وجہ سے یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ شہری ہلاکتوں میں کمی کی اصل وجہ کیا ہو سکتی ہے۔‘‘
ڈرون حملوں کے معاملے کو لے کر امریکہ پر انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں اور خود اقوام متحدہ کی طرف سے کئی سوال اٹھتے رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ ہتھیاروں سے لیس ڈرون طیاروں کی پروازوں کو کسی ضابطے میں لانے کی ضرورت ہے۔
گزشتہ سال کے اواخر میں اقوام متحدہ کی ایک عبوری رپورٹ میں پاکستانی وزارت خارجہ کی تصدیق سے یہ بات کہی گئی تھی کہ 2004ء سے قبائلی علاقوں میں 330 ڈرون حملے ہو چکے ہیں جن میں 2200 افراد مارے گئے جن میں کم ازکم چار سو عام شہری بھی شامل تھے۔
امریکہ ڈرون حملوں کو انسداد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک موثر ہتھیار گردانتا ہے۔
بیورو آف انویسٹیگیٹوو جرنلزم کی اس تازہ رپورٹ کے بعد دہشت گردوں کے خلاف روایتی فوجی کارروائیوں کی نسبت ڈرون حملوں کی اہمیت اور ان کے استعمال کی قانونی حیثیت کی وکالت کرنے والوں کو تقویت مل سکتی ہے۔
امریکہ ان حملوں کی کسی طرح کی تفصیلات جاری نہیں کرتا لیکن یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ماضی میں پاکستان کی طرف سے ان حملوں میں ہونے والی ہلاکتوں کے اعداد و شمار میں خاصا تضاد پایا جاتا رہا ہے۔
یہ بات برطانیہ میں قائم تنظیم بیورو آف انویسٹیگیٹوو جرنلزم کی طرف سے جاری کی گئی۔
تنظیم نے یہ رپورٹ 27 ڈرون حملوں کے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے جمع کی گئی اخباری معلومات اور تحقیقات کی روشنی میں ترتیب دی۔ اس کے مطابق 2013ء میں پاکستان کے دور افتادہ قبائلی علاقوں میں ہونے والے ڈرون حملوں میں 112 سے 193 کی تعداد میں لوگ مارے گئے۔
بیورو میں ڈرون ریسرچ یونٹ کی سربراہ ایلس رَوس کے مطابق نگرانی میں اضافے، سیاسی دباؤ اور حملوں میں کمی شہری ہلاکتوں میں کمی کی وجہ ہو سکتی ہے۔
’’ڈرون کارروائیوں کی نگرانی سے متعلق شفافیت میں کمی کی وجہ سے یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ شہری ہلاکتوں میں کمی کی اصل وجہ کیا ہو سکتی ہے۔‘‘
ڈرون حملوں کے معاملے کو لے کر امریکہ پر انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں اور خود اقوام متحدہ کی طرف سے کئی سوال اٹھتے رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ ہتھیاروں سے لیس ڈرون طیاروں کی پروازوں کو کسی ضابطے میں لانے کی ضرورت ہے۔
گزشتہ سال کے اواخر میں اقوام متحدہ کی ایک عبوری رپورٹ میں پاکستانی وزارت خارجہ کی تصدیق سے یہ بات کہی گئی تھی کہ 2004ء سے قبائلی علاقوں میں 330 ڈرون حملے ہو چکے ہیں جن میں 2200 افراد مارے گئے جن میں کم ازکم چار سو عام شہری بھی شامل تھے۔
امریکہ ڈرون حملوں کو انسداد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک موثر ہتھیار گردانتا ہے۔
بیورو آف انویسٹیگیٹوو جرنلزم کی اس تازہ رپورٹ کے بعد دہشت گردوں کے خلاف روایتی فوجی کارروائیوں کی نسبت ڈرون حملوں کی اہمیت اور ان کے استعمال کی قانونی حیثیت کی وکالت کرنے والوں کو تقویت مل سکتی ہے۔
امریکہ ان حملوں کی کسی طرح کی تفصیلات جاری نہیں کرتا لیکن یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ماضی میں پاکستان کی طرف سے ان حملوں میں ہونے والی ہلاکتوں کے اعداد و شمار میں خاصا تضاد پایا جاتا رہا ہے۔