بھارت کے سابق ریاستی وزیر اور کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کی گزشتہ ہفتے پاکستان آمد کے دوران چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ان کی پر جوش ملاقات اور ان کی جانب سے ’کرتارپور کوریڈور‘ کھولنے کے بیان نے بھارت کے سیاسی درجۂ حرارت میں اضافہ کردیا ہے اور یہ معاملہ تاحال بھارتی میڈیا کی شہ سرخیوں میں ہے۔
سدھو کے مطابق جنرل باجوہ نے وزیرِ اعظم عمران خان کی تقریبِ حلف برداری کے دوران ان سے وعدہ کیا کہ پاکستان اگلے سال بابا گورو نانک کے 550 ویں جنم دن کی تقریبات کے موقع پر ’کرتاپور کوریڈور‘ سکھ یاتریوں کے لیے کھول دے گا۔
سدھو نے پرجوش انداز میں جنرل باجوہ کے اس بیان کا خیرمقدم کیا اور ان کی تعریف کی۔
لیکن بہت سے پاکستانی اور بھارتی شہریوں کے لیے ’کرتار پور کوریڈور ‘کا نام بالکل نیا ہے۔
کرتارپور میں سکھ مت کے ماننے والوں کی ایک بڑی عبادت گاہ ہے جس کا مکمل نام ’گورو دوارہ دربار سنگھ کرتار پور صاحب‘ ہے جو پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ضلع نارووال میں واقع ہے۔
کچھ ہی عرصہ پہلے یہاں کی یاترا سے واپس آنے والے سردار رام سنگھ نے وائس آف امریکہ کو بتایا، "سکھوں کے لیے ’گورو دوارہ دربار سنگھ کرتار پور صاحب‘ انتہائی مقدس مذہبی مقامات میں سے ایک ہے۔ سکھ مت کے بانی بابا گورو نانک نے اپنی زندگی کے آخری 18 سال اسی گورو دوارے میں گزارے اور یہیں سے وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے۔"
سردار رام سنگھ کے بقول اسی گورو دوارے میں انہوں نے مذہب کی ترویج و تبلیغ کی اور یہیں اپنے شاگردوں اور عقیدت مندوں کی روحانی تربیت کی اور یہیں سے ان کا پیغام دنیا کے دوسرے ممالک تک پہنچا۔
رام سنگھ مزید بتاتے ہیں، "گرو نانک کی باقیات، ان سے منسلک چیزیں جن میں ان کی آخری آرام گاہ یعنی ’مزار صاحب‘ اور ’سمھد صاحب‘، ان کے زیرِ استعمال رہنے والا میٹھے پانی کا کنواں، سونے کا کمرہ اور عبادت کے لیے استعمال ہونے والا مقام یہیں واقع ہیں۔ ان تمام باقیات کو بطور ’یادگار بابا گورو نانک‘ محفوظ کیا گیا ہے۔"
گورو دوارے کے اطراف کی ساری زمین زرخیز ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ وہی کھیت کھلیان ہیں جہاں گورو نانک بذاتِ خود کاشتکاری کیا کرتے تھے۔
رام سنگھ جی نے اپنے دورے کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے وی او اے کو بتایا، "سبزہ زار کے درمیان واقع گورو دوارہ دربار سنگھ کرتار پور صاحب بہت خوب صورت منظر پیش کرتا ہے۔ گورو دوارے کی پوری عمارت سورج کی روشنی میں سارا دن چمکتی اور رات کو چاندنی میں دودھ سے نہلائی ہوئی لگتی ہے۔ سکھ مت کے ماننے والوں کو یہ دونوں سماں اپنے گورو کی یاد تازہ کراتے ہیں۔"
’پاکستان سکھ کونسل‘ کے پیٹرن انچیف سردار رمیش سنگھ نے اس حوالے سے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا، "کرتار پور صاحب کے عین سامنے بھارتی سرحد کے اندر گرداس پور کے علاقے میں سکھوں کا ایک اور نہایت مقدس گورو دوارہ ’ڈیرہ بابا نانک‘ واقع ہے۔ ان دونوں گورو دواروں کی یاترا کے لیے جانے والے سکھ یاتری یہاں پہنچ کر ایک دوسرے کے علاقوں میں واقع ان دونوں مقدس گورو دواروں کو دور سے دیکھ کر ہی ماتھا زمین پر ٹیک دیتے ہیں کیوں کہ سرحدی پابندیوں اور سخت قوانین کی وجہ سے بھارتی یاتری گورودوارہ دربار صاحب یا کرتار پور صاحب نہیں جا پاتے۔ جنرل باجوہ نے اسی جگہ کو یاتریوں کے لیے کھولنے کی بات کی ہے۔"
رمیش سنگھ نے بتایا کہ سکھوں کی جانب سے مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ بھارتی سرحد سے گور دوارہ کرتارپور تک ایک ایسا راستہ یا کوریڈور بنا دیا جائے جہاں سے سکھ یاتریوں کا گوردارے تک آنا جانا ممکن ہو سکے۔ اس امر کو ممکن بنانے کے لیے دریائے راوی پر ایک پُل تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ ا س سے نہ صرف بھارتی سکھ یاتریوں کی گورو دوراے تک رسائی آسان ہوجائے گی بلکہ وہ ایک ہی دن میں واپس اپنے ملک بھی جاسکیں گے۔ کوریڈور کھول دیا جائے تو یاتریوں کو ویزے کی ضرورت بھی نہیں رہے گی کیوں کہ ان کی آمد صرف راہدری تک محدود ہو گی۔
اس اقدام سے دونوں ممالک کو کیا فائدہ ہوسکتا ہے؟ وی او اے کے اس سوال پر سردار رمیش سنگھ کا کہنا تھا کہ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر کے 99 فی صد سکھوں نے دربار سنگھ کرتارپور صاحب گورو دوارے کا کبھی دیدارنہیں کیا۔ پاکستانی حکومت تو پہلے بھی کرتارپور کوریڈور کھولنے کا ارادہ ظاہر کرچکی ہے لیکن بھارتی حکومت کی طرف سے اس کا جواب تاحال اسے نہیں ملا۔
ان کے بقول دونوں حکومتوں کے درمیان مذاکرات یا معاہدے کے بعد اگر یہ کوریڈور کھول دیا جائے تو نہ صرف مقامی یاتریوں کی آمد و رفت بڑھ جائے گی بلکہ بھارت سمیت دنیا کے ان گنت ممالک میں آباد سکھ برادریوں کی آمد بھی یقینی ہوجائے گی۔ اس سے ایک طرف بھارت اور پاکستان کے تعلقات پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے تو دوسری جانب دونوں ممالک کے سیاحت کے شعبوں کو نئی زندگی ملے گی۔
سردار رمیش سنگھ کے بقول یاتریوں کی آمد سے پاکستانی معیشت کو جلا ملے گی کیوں کہ دنیا بھر میں مذہبی مقامات کی یاترائیں ہمیشہ سے دوستانہ تعلقات، سیاحت اور معیشت کے لیے انتہائی اہم رہی ہیں۔