'کتابوں کی بدلتی قیمت نے تو پریشان کر رکھا ہے'

فائل فوٹو

یوں تو دنیا بھر میں ہی کتابیں پڑھنے کا رجحان کم ہو رہا ہے لیکن کتابیں پڑھنے کے شوقین افراد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اس رجحان کے دم توڑنے کی ایک بڑی وجہ کتابوں کی زیادہ قیمیتں ہیں۔

بات صرف زیادہ قیمتوں تک ہی محدود نہیں بلکہ کتب بینی کرنے والے بہت سے افراد کتابوں پر لکھی غیر ملکی کرنسی میں درج قیمتوں اور روپے کی گرتی قدر سے بھی بہت پریشان ہیں۔

اکثر دکانوں میں ایسی کتب کی بھر مار ہے جو باہر سے در آمد کی جا رہی ہیں اور ان کی قیمت بھی ان ہی ممالک کی کرنسی میں درج ہوتی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستان میں کتابوں کے خریدار غیر ملکی کتابوں کی قیمتوں سے پریشان

سی ایس ایس کے امتحان کی تیاری میں مصروف احمد جب بھی کتابیں خریدتے ہیں رقم کے اس فرق کو پڑھنے والے کی جیب پر اضافی بوجھ سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میرا تعلق تو بہاولپور سے ہے۔ اسلام آباد میں رہنے کے اخراجات پہلے ہی کافی ہوتے ہیں اور پھر آئے روز کتابوں کی بدلتی قیمت نے پریشان کر رکھا ہے۔

خریداروں کے مطابق بیرون ملک سے آنے والی یہ کتب تحقیقی کام کرنے والوں کی زیادہ ضرورت ہیں لیکن جو افراد کتب بینی کو محض ایک عادت نہیں بلکہ ذہنی تربیت کا حصہ سمجھتے ہیں وہ ایسی کتب کی قیمت ادا کرنے کو تیار رہتے ہیں جن پر پاونڈز اور ڈالرز میں قیمتیں درج ہوتی ہیں۔

ارسلان بھی کتابوں کے شوقین افراد میں سے ایک ہیں لیکن ان کا خیال ہے کہ بہت سی کتابیں اسمگل کر کے پاکستان لائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے دکان دار تو زیادہ قیمت ادا نہیں کرتے مگر خریدار کو اصل قیمت کے حساب سے ہی ادائیگی کرنا پڑتی یے۔

Your browser doesn’t support HTML5

پڑھنے کے لئے مفت کتابیں مہیا کرنے والی لٹل فری لائبریری

بقول ارسلان، "کوئی کتاب آٹھ ہزار روپے کی مل رہی ہے تو کسی کی قیمت 16 یا 17 ہزار روپے ہے لیکن دکان داروں کے مقابلے میں ہمیں زیادہ قیمت دینی پڑتی ہے۔

دوسری جانب دکان دار یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں کتابیں آج بھی دوسرے ممالک کے مقابلے میں سستی ہیں۔

اسلام آباد کی ایک مشہور کتابوں کی دکان کے مالک محمد سعید کا کہنا ہے کہ کتابوں پر قیمت غیر ملکی کرنسی میں درج ہو، تو بھی زیادہ تر کتب سستے داموں ہی فروخت کی جاتی ہیں۔ ان پر درج پوری قیمت وصول نہیں کی جاتی۔

Your browser doesn’t support HTML5

لائبریری جہاں انسانوں نے کتابوں کا روپ دھار لیا ہے

وہ مزید کہتے ہیں کہ کچھ بین الاقوامی پبلیشرز پاکستان میں اپنی موجودگی یقینی بنانا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے بہت سی کتابیں کم قیمت میں مل جاتی ہیں۔

محمد سعید نے بتایا کہ زیادہ تر پبلشر پاکستانیوں کی قوت خرید کو ذہن میں رکھتے ہوئے قیمتوں کا تعین کرتے ہیں۔ غیر ملکی کرنسی میں درج قیمت کا اطلاق صرف در آمد شدہ کتب پر ہی ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مستند پبلشرز کی چھاپی ہوئی کتب کتنی ہی سستی کیوں نہ ہوں وہ پائریٹڈ کتابوں کا مقابلہ نہیں کر سکتیں اور یہ ایک اہم وجہ ہے جس سے کتابیں بیچنے کا کاروبار بھی متاثر ہو رہا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

نادر کتابوں کا فٹ پاتھ بازار

محمد سعید مزید بتاتے ہیں کہ کسی دکان دار یا ناشر کے پاس اس مسئلے کا کوئی حل نہیں، کیوں کہ غیر قانونی طور پر چھاپی گئی یعنی پائریٹڈ کتابوں کے مقابلے میں تمام کتب ہی مہنگی لگتی ہیں۔

دوسری طرف پاکستانی مصنف اس مسئلے کا ذکر بارہا کرتے رہے ہیں کہ اب کتب لکھنے میں مالی منفعت بالکل نہیں ہے۔

ایسے ہی ایک نئے لکھاری حنان عباسی کہتے ہیں کہ مصنف اور تصنیف دونوں کی ترویج میں ریاست کی عدم دلچسپی پہلے ہی ان جیسے مصنفین کے لیے حوصلہ شکنی کا باعث ہے۔ رہی سہی کسر کتابوں کی زیادہ قمیت نے پوری کر دی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

چھتوں سے محروم اسلام آباد کی سرکاری لائبریریاں

حنان عباسی کا کہنا تھا کہ جہاں حکومت اتنے شعبہ جات میں سبسڈی کا اعلان کرتی ہے وییں کتابوں کی اشاعت اور فروخت پر بھی ایسی پالیسی کا اطلاق ہونا چاہیے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اگر کسی نہ کسی طرح کتاب لینے کے لیے رقم مختص کر بھی لی جائے تو غیر ملکی کرنسی والی کتب مشکلات ہی پیدا کرتی ہیں جس کا بالآخر نقصان لکھاری کو بھی ہوتا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

کتابوں کی دنیا سلامت رہے

ان کا کہنا تھا کہ کتاب دشمن پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ پاکستان میں نئے لکھنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔

کتب بینی کے شوقین افراد کسی نہ کسی طرح اپنا شوق پورا کرنے کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن یہ شکایت بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ مہنگی کتب ہوں یا پائیرسی کے مسائل، سب ہی عوامل کتابوں سے دوری کی وجہ بن رہے ہیں۔