ٹیکس شرائط کے خلاف تاجروں کی ملک گیر شٹر ڈاؤن ہڑتال

پاکستان کے مالی سال 20-2019 کے بجٹ میں نئے ٹیکس اقدامات کے خلاف ملک بھر کی تاجر تنظیمیں منگل سے دو روزہ شٹر ڈاؤن ہڑتال کر رہی ہیں۔ ہڑتال کے باعث ملک کے تمام بڑے شہروں میں کاروبار مکمل یا جزوی طور پر معطل ہے۔

تاجر رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے عائد کردہ شرائط کے بعد کاروبار کرنا مشکل ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے وہ ہڑتال پر مجبور ہیں۔

تاجر برادری نے رواں سال کے بجٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ حکومت نے ان پر آمدن سے زائد ٹیکس نافذ کر دیے ہیں۔

اگرچہ بجٹ منظور ہوئے چار ماہ ہو چکے ہیں اور اس عرصے میں تاجر تنظیموں کی جانب سے متعدد احتجاج اور حکومت کے ساتھ مذاکرات کی نشستیں کی گئی ہیں جو کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکیں۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنے دورۂ کراچی کے دوران تاجروں سے ملاقات کی تھی اور ان کے جائز مطالبات حل کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ لیکن حکومت اور تاجر برادری کے درمیان اختلافات برقرار ہیں۔

ملک میں جاری شٹر ڈاون ہڑتال کے بعد مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے تاجروں کو مذاکرات کے لیے وزارتِ خزانہ بلوایا جہاں ان کی تاجروں سے طویل ملاقات ہوئی۔

ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے حفیظ شیخ نے کہا کہ تاجروں کے تعاون کے بغیر ملک میں معاشی بہتری ممکن نہیں۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ تاجروں کے ساتھ مذاکرات میں مثبت نتیجہ سامنے آئے گا۔

البتہ، حکومت اور تاجروں کے درمیان مذاکرات کا یہ دور بھی بے نتیجہ ختم ہو گیا ہے اور تاجروں نے اعلان کیا ہے کہ جب تک حکومت ان کے مطالبات کی منظوری کی تحریری یقین دہانی نہیں کرائے گی، تب تک احتجاج جاری رہے گا۔

تاجروں کے مطالبات کیا ہیں؟

تاجر تنظیموں کو حکومت کی جانب سے عائد کردہ نئے ٹیکسز اور کاروبار کو دستاویزی شکل دینے کے اقدامات پر تحفظات ہیں جس کے خلاف وہ گزشتہ چار ماہ سے احتجاج کر رہے ہیں۔

حکومت اور کاروباری طبقے کے درمیان اختلاف کی ایک وجہ خرید و فروخت کے دوران شناختی کارڈ کی شرط بھی ہے، جسے کاروباری حضرات ماننے کو تیار نہیں۔

تاجروں کے بنیادی مطالبات میں 50 ہزار سے زائد مالیت کی اشیأ کی خرید و فروخت پر عائد شناختی کارڈ کی شرط ختم کرنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے کاروبار میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔

تاجر برادری چاہتی ہے کہ ڈسٹری بیوٹرز اور ریٹیلرز سے کل آمدن کے بجائے صرف خالص منافع پر ٹیکس لیا جائے۔ تاجروں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ ریٹیلرز پر فکسڈ ٹیکس کا قانون لاگو کیا جائے۔

تاجروں کا کہنا ہے کہ حکومت نے نئے اقدامات سے تاجروں کو ودہولڈنگ ٹیکس ایجنٹ بنا دیا ہے جس پر انہیں اعتراض ہے۔ لہٰذا، وہ ٹیکس ادائیگی کے طریقہ کار کو آسان بنانے اور ٹیکس ریٹرن فارم اردو میں کرنے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔

تاجر رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مطالبات کی منظوری کے لیے وہ حکومت کے ساتھ متعدد ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ لیکن جب بات نہیں بنی تو وہ ہڑتال کی کال دینے پر مجبور ہوئے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے آل پاکستان انجمن تاجران کے صدر اجمل بلوچ نے کہا ہے کہ ہمارے اکثر تاجر پڑھے لکھے نہیں جو ٹیکس ریٹرنز بھرتے رہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ تمام بنکوں کو ٹیکس گوشوارے جمع کرنے کا اختیار دیا جائے۔

تاجروں نے اعلان کیا ہے کہ جب تک حکومت تاجروں کے مطالبات تسلیم نہیں کرتی، احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا۔ خیال رہے کہ تاجروں نے 29 اور 30 اکتوبر دو روزہ ہڑتال کا اعلان کیا ہوا ہے۔

دوسری جانب حکومت کا مؤقف ہے کہ وہ ملک میں معاشی اصلاحات لانا چاہتے ہیں جس کے لیے کاروبار کو دستاویزی شکل دینا ضروری ہے۔ لہٰذا، کاروباری طبقے کو حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔

اس سے قبل تاجروں کے مطالبے پر حکومت نے 50 ہزار سے زائد مالیت کی اشیأ کی خرید و فروخت پر شناختی کارڈ کی فراہمی کی شرط کو جزوی طور پر معطل کیا ہوا تھا۔

خیال رہے کہ حکومت نے رواں مالی سال کے بجٹ میں ٹیکس اصلاحات متعارف کرائی تھیں۔ اس ضمن میں مزید افراد کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لانے کے لیے اقدامات بھی کیے گئے تھے۔

حکومتی اقدامات پر تاجر برادری کا مؤقف ہے کہ نامساعد معاشی حالات میں مزید ٹیکس عائد کرنا ناانصافی ہے۔