زمانے کے ساتھ ساتھ، بدلتے ہوئے پاکستانی معاشرے میں بوائے فرینڈز بنانے معیوب نہیں رہا، کنواروں کے ساتھ ساتھ شادی شدہ لوگ بھی اسے برا نہیں سمجھتے ۔۔۔وجوہات ذیل میں پڑھئے
پاکستانی معاشرے میں لفظ ’بوائے فرینڈ‘ اب معیوب نہیں رہا، بلکہ یہ ’فیشن‘ بنتا جارہاہے۔
سنہ 70، 80 یہاں تک کہ 90کی دہائی میں بھی اسے اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا، اور نوجوان اپنے والدین اور دیگر بزرگوں کے سامنے اسے زبان سے ادا کرتے ہوئے ڈرتے تھے۔ لیکن، نئے ہزاریئے میں آنے والی معاشرتی تبدیلی نے ’بوائے فرینڈ‘ اور ’گرل فرینڈ‘ کی اصطلاح کو عام کردیا ہے۔
کراچی کے رہائشی اور درمیانی عمر رکھنے والے باسط کہتے ہیں، ’میں نے پہلی مرتبہ 1992ء یا 1993ء میں ڈش ٹی وی کے ذریعے پڑوسی ملک سے آنے والے پروگراموں میں لفظ ’بوائے فرینڈ‘ سنا۔ ہو سکتا ہے اس سے پہلے بھی کسی فلم یا کسی اخبار اور رسالے میں بھی یہ لفظ پڑھا یا سنا ہو۔ لیکن، اس کا تواتر کے ساتھ استعمال ٹی وی پروگراموں میں دیکھا۔‘
کراچی یونیورسٹی کی ایک طالبہ نسیم کا کہنا ہے کہ، ’ارلی نائن ٹیز میں ٹی وی اور لیٹ نائن ٹیز میں موبائل فونز نے بوائے فرینڈز اور گرل فرینڈز بنانے میں جو ’کردار‘ ادا کیا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ نئی ٹیکنالوجی کے غلط استعمال نے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں میں فرینڈز بنانے کا رواج عام کیا۔ ورنہ اس سے پہلے بات صرف ’قلمی دوستی‘ تک محدود تھی۔‘
پاکستانی معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں پر گہری نظر ڈالیں تو ایک خطرناک پہلو یہ بھی سامنے آرہا ہے کہ بوائے فرینڈز اور گرل فرینڈز صرف غیر شادی شدہ لوگ ہی نہیں بنا رہے، بلکہ شادی شدہ جوڑوں نے بھی اپنے اپنے ’فرینڈز‘ تلاش کر لئے ہیں۔
اس بات کی صداقت کا اندازہ کراچی کے سٹی کورٹ میں دائر ہونے والے خلع کے مقدمات سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔
تحقیقی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کراچی جیسے میٹروپولیٹن شہر میں خواتین کی جانب سے خلع لینے کی شرح میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ صرف دو ماہ، جولائی اور اگست 2013ء کے دوران شادی شدہ خواتین نے عدالتوں میں 1000 سے زائد خلع کے مقدمات دائر کئے۔
جولائی میں 593 اور اگست میں 434 خلع کے مقدمات دائر ہوئے، جبکہ رواں سال کے دوران یہ تعداد مجموعی طور پر پانچ ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔
روزنامہ ’جنگ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، ’معاشرے میں خلع لینے کی بنیادی وجوہ موبائل فون کا بے جا استعمال اور ٹی وی ڈراموں و فلموں میں دکھائی جانے والی آزادی اور پرآسائش زندگی ہے، جن کا بیویاں شوہروں سے مطالبہ کرتی ہیں۔ لیکن، شوہر انہیں پورا نہیں کر پاتے اور نتیجہ خلع کی صورت میں نکلتا ہے۔‘
سنہ 70، 80 یہاں تک کہ 90کی دہائی میں بھی اسے اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا، اور نوجوان اپنے والدین اور دیگر بزرگوں کے سامنے اسے زبان سے ادا کرتے ہوئے ڈرتے تھے۔ لیکن، نئے ہزاریئے میں آنے والی معاشرتی تبدیلی نے ’بوائے فرینڈ‘ اور ’گرل فرینڈ‘ کی اصطلاح کو عام کردیا ہے۔
کراچی کے رہائشی اور درمیانی عمر رکھنے والے باسط کہتے ہیں، ’میں نے پہلی مرتبہ 1992ء یا 1993ء میں ڈش ٹی وی کے ذریعے پڑوسی ملک سے آنے والے پروگراموں میں لفظ ’بوائے فرینڈ‘ سنا۔ ہو سکتا ہے اس سے پہلے بھی کسی فلم یا کسی اخبار اور رسالے میں بھی یہ لفظ پڑھا یا سنا ہو۔ لیکن، اس کا تواتر کے ساتھ استعمال ٹی وی پروگراموں میں دیکھا۔‘
کراچی یونیورسٹی کی ایک طالبہ نسیم کا کہنا ہے کہ، ’ارلی نائن ٹیز میں ٹی وی اور لیٹ نائن ٹیز میں موبائل فونز نے بوائے فرینڈز اور گرل فرینڈز بنانے میں جو ’کردار‘ ادا کیا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ نئی ٹیکنالوجی کے غلط استعمال نے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں میں فرینڈز بنانے کا رواج عام کیا۔ ورنہ اس سے پہلے بات صرف ’قلمی دوستی‘ تک محدود تھی۔‘
پاکستانی معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں پر گہری نظر ڈالیں تو ایک خطرناک پہلو یہ بھی سامنے آرہا ہے کہ بوائے فرینڈز اور گرل فرینڈز صرف غیر شادی شدہ لوگ ہی نہیں بنا رہے، بلکہ شادی شدہ جوڑوں نے بھی اپنے اپنے ’فرینڈز‘ تلاش کر لئے ہیں۔
اس بات کی صداقت کا اندازہ کراچی کے سٹی کورٹ میں دائر ہونے والے خلع کے مقدمات سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔
تحقیقی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کراچی جیسے میٹروپولیٹن شہر میں خواتین کی جانب سے خلع لینے کی شرح میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ صرف دو ماہ، جولائی اور اگست 2013ء کے دوران شادی شدہ خواتین نے عدالتوں میں 1000 سے زائد خلع کے مقدمات دائر کئے۔
جولائی میں 593 اور اگست میں 434 خلع کے مقدمات دائر ہوئے، جبکہ رواں سال کے دوران یہ تعداد مجموعی طور پر پانچ ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔
روزنامہ ’جنگ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، ’معاشرے میں خلع لینے کی بنیادی وجوہ موبائل فون کا بے جا استعمال اور ٹی وی ڈراموں و فلموں میں دکھائی جانے والی آزادی اور پرآسائش زندگی ہے، جن کا بیویاں شوہروں سے مطالبہ کرتی ہیں۔ لیکن، شوہر انہیں پورا نہیں کر پاتے اور نتیجہ خلع کی صورت میں نکلتا ہے۔‘