جدہ خود کش حملہ پاکستانی بمبار نے کیا: سعودی عرب

سعودی عرب کی وزارت داخلہ کے مطابق عبداللہ گلزار گزشتہ 12 سال سے سعودی عرب میں مقیم تھا۔

سعودی عرب کے شہر جدہ میں امریکی قونصل خانے کے باہر پیر کو ہونے والے خودکش بم دھماکے کے بعد سعودی وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ خودکش بمبار کا تعلق پاکستان سے تھا اور اُس کی شناخت عبداللہ گلزار کے نام سے کی گئی ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ’ٹوئیٹر‘ پر سعودی عرب کی وزارت داخلہ کے اکاؤنٹ سے جاری ایک پیغام میں کہا گیا کہ عبداللہ گلزار خان گزشتہ 12 سال سے سعودی عرب میں مقیم تھا۔

سعودی وزارت داخلہ کی طرف سے یہ بھی بتایا گیا کہ گلزار خان اپنی زوجہ اور اُس کے والدین کے ساتھ سعودی عرب میں مقیم تھا اور وہ بطور ڈرائیور یہاں کام کر رہا تھا۔

مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس شہر مدینہ کے علاوہ سعودی عرب کے دو دیگر علاقوں میں پیر کو ہونے والے خودکش بم دھماکوں کی شدید مذمتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ پاکستان کی طرف سے سعودی عرب میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کی نا صرف شدید مذمت کی گئی بلکہ سعودی حکومت کے ساتھ اظہار یکجہتی بھی کیا گیا۔

’’جدہ میں (امریکہ قونصل خانے پر حملے) کے بارے میں میں نے رپورٹ دیکھی ہے کہ خودکش بمبار کا تعلق شاید پاکستان سے بتایا جا رہا ہے۔ تو ہم سعودی حکومت کے ساتھ رابطے میں ہیں اور مزید تفصیلات حاصل کر رہے ہیں۔ دیکھیں دہشت گرد کا نا تو کوئی مذہب ہوتا ہے اور نا ہی کوئی اس کی شناخت ہوتی ہے۔ دہشت گرد، دہشت گرد ہوتا ہے اور یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اس کو کسی ایک ملک کے ساتھ منسلک نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف بین الاقوامی برادری کے ساتھ بھرپور تعاون کرتا ہے۔‘‘

واضح رہے کہ سعودی عرب میں بہت بڑی تعداد میں پاکستانی روزگار کے لیے مقیم ہیں۔

جب وزارت خارجہ کے ترجمان سے یہ پوچھا گیا کہ جدہ میں خودکش بم حملے کے بعد سعودی عرب میں موجود پاکستانیوں پر ممکنہ طور پر کیا اثرات پڑ سکتے ہیں تو اُن کا کہنا تھا کہ پاکستانی سعودی عرب کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں جسے اُن کے بقول قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

’’سعودی عرب میں پاکستانی کئی دہائیوں سے مقیم ہیں اور ان (سعودی عرب) کی ترقی کے مختلف شعبہ جات میں ان کا بہت ہی اچھا کردار رہا ہے اور اس کی بڑی ہی قدرومنزلت بھی ہے۔‘‘

جدہ میں امریکی قونصل خانے پر حملے میں دو سکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے تھے۔ سعودی عرب میں امریکی سفارت خانے کے مطابق اس بم حملے میں قونصل کے عملے کے تمام افراد محفوظ رہے۔

جدہ میں بم دھماکے کے کچھ گھنٹوں بعد سعودی عرب کے شہر مدینہ میں مسجد نبوی کے باہر ایک چوکی پر خودکش بم دھماکے میں کم از کم چار افراد مارے گئے تھے۔

مدینہ مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس شہر ہے جہاں مسجد نبوی میں پیغمر اسلام کی تدفین ہوئی اور ہر سال لاکھوں مسلمان دنیا بھر سے مسجد نبوی آتے ہیں۔

خاص طور پر حج کے موقع پر اور ماہ رمضان میں بہت بڑی تعداد میں مسلمان عبادت کے لیے مسجد نبوی جاتے ہیں۔

مدینہ میں دھماکے سے کچھ دیر قبل ملک کے مشرقی شہر قطیف میں شیعہ مسلک کی مسجد کے بھی باہر بھی ایک دھماکا ہوا، یہ حملہ بھی خودکش بمبار کی کارروائی بتائی جاتی ہے تاہم مسجد میں موجود تمام افراد محفوظ رہے۔

پاکستان علما کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر اشرفی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ مدینہ میں خودکش دھماکے کے بعد اب دہشت گردی کے خلاف متفقہ حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔

’’اب تو میرا خیال ہے کہ بڑا واضح پیغام ہے پوری دنیا کے لیے کہ اب حرمین شریفین ان دہشت گردوں کا نشانہ ہے تو اب بھی اگر مسلم قیادت سر جوڑ کر نہیں بیٹھے گی اور یہ طے نہیں کرے گی کہ ان دہشت گردوں کا مقابلہ کیسے کرنا ہے تو پھر کب بیٹھی گی۔۔۔۔ایک واضح موقف اختیار کر کے عملی اقدامات اٹھانے چاہیئں اب لفظی نہیں عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔‘‘

مولانا راغب حسین نعیمی کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں مذہبی رہنماؤں کو بھی دہشت گردی کے خلاف یکجہتی میں کردار ادا کرنا ہو گا۔

’’جہاں بھی دہشت گرد موجود ہیں تمام امت مسلمہ کی اب ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ مشترکہ کارروائی کر کے ان تمام دہشت گردوں کا خاتمہ کریں۔۔۔ وقت کی یہ ضرورت ہے مسلمان علماء ایک جگہ پر جمع ہوں ایک نظریے کی بات کریں۔‘‘

وزیراعظم نواز شریف نے ایک بیان میں سعودی عرب میں ہونے والے بم دھماکوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی حکومت اور عوام اس مشکل گھڑی میں سعودی عرب کے ساتھ کھڑے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ مختلف براعظموں میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے تناظر میں بین الاقوامی برداری کے باہمی تعاون اور مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے ہر واقعہ کے خلاف کھڑا ہے۔

پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بھی پیر کی شب ٹیلی فون پر سعودی عرب کے وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان سے رابطہ کیا اور بم حملوں کی پرزور مذمت کی۔