سعودی عرب اور ایران کے مابین تازہ کشیدگی جہاں خطے میں تناؤ کا سبب بن رہی ہے وہیں اسے مفاہمتی انداز میں حل کرنے کی کوششوں کے مطالبات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
سعودی عرب نے اپنے ایک شہری شیعہ عالم دین شیخ نمر النمر کو بغاوت اور تشدد پر اکسانے کے الزامات پر سزائے موت دی تھی جس کے خلاف ایران نے سخت ردعمل کا اظہار کیا اور تہران میں مشتعل مظاہرین نے سعودی سفارتخانے میں گھس کر وہاں جلاؤ گھیراؤ کیا۔
ان واقعات کے بعد سعودی عرب، بحرین، کویت اور سوڈان نے اپنے سفرا کو تہران سے واپس بلا لیا جس سے یہ معاملہ مزید سنگین ہو گیا ہے۔
پاکستان کے دونوں مسلم ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں اور اس کی حکومت کا موقف ہے کہ کشیدگی کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جانا چاہیئے تاکہ اس تناؤ کا فائدہ دہشت گرد اور انتہا پسند عناصر نہ اٹھا سکیں۔
ایران ایک شیعہ اکثریتی آبادی والا ملک ہے جب کہ اس کے روایتی حریف سعودی عرب میں کٹڑ سنی نظریات رکھنے والوں کی حکومت ہے۔
اس سارے معاملے کو خطے میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافے کا پیش خیمہ قرار دیتے ہوئے پہلے سے انتشار کے شکار مشرق وسطیٰ میں مزید بدامنی کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔
ایوان بالا "سینیٹ" کی رکن نسرین جلیل کہتی ہیں پاکستان کو اس تنازع میں ثالث کا کردار ادا کرنا چاہیئے کیونکہ اگر فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھتی ہے تو یہ کسی طور بھی پاکستان کے مفاد میں نہیں ہوگا۔
"پاکستان کے مفاد میں یہ بالکل نہیں کہ یہاں شیعہ سنی فسادات ہوں یا ایران اور سعودی عرب کی درپردہ جنگ (پراکسی وار) یہاں لڑی جائے کیونکہ یہ مزید بھی پھیل سکتا ہے۔۔۔میں سمجھتی ہوں کہ پاکستان سب سے بہتر پوزیشن میں اس لحاظ سے ہے کہ ہمارے ایران کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں اور ہمارے سعودی کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں اور انھیں سمجھانے کی بات ہے کہ خدارا ایسا نہ کرو۔"
پاکستان میں شیعہ اور سنی مسالک کے درمیان کشیدگی بھی کوئی نئی بات نہیں اور ملک کے مختلف حصوں سے ان کے مابین مہلک جھڑپوں کے واقعات کی خبریں آتی رہتی ہیں۔
شیخ نمر کو سزائے موت دیے جانے پر پاکستان کے مختلف شہروں میں بھی سعودی عرب کے خلاف مظاہرے دیکھنے میں آچکے ہیں۔
تاہم سنی مسلک سے تعلق رکھنے والے ایک معروف عالم دین حافظ طاہر اشرفی کہتے ہیں کہ اس معاملے کو اعتدال میں لانا وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔
"ہم تمام مذہبی و سیاسی قوتوں سے کہتے ہیں کہ وہ پاکستان کے اندر اس لڑائی کو شروع نہ کریں۔۔۔جو بھی زیادتی کر رہا ہے اس سے بات کرکے اعتدال میں لانا، اس وقت اس میں پاکستان کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔"
شیعہ مسلک کے ایک رہنما علامہ محمد امین شہیدی کا کہنا ہے کہ اس معاملے کا سفارتی و سیاسی انداز میں حل تلاش کرنے کی ضرورت تھی نہ کہ سفارتی تعلقات منقطع کر کے کشیدگی کو پھیلانے کی۔
"اس کے نتیجے میں ان عناصر کو تقویت ملے گی جو پورے خطے کے اندر بھی اور دنیا کے اندر بھی شدت کو فروغ دینا چاہتے ہیں، نفرت کو فروغ دینا چاہتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ وہ ممالک جن کا موقف اور نظریہ تحمل اور بردباری پر ہے ان کا فریضہ بنتا ہے کہ اس حوالے سے شدت کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔"
سعودی عرب کے وزیرخارجہ عادل الجبیر نے اس صورتحال کے شروع ہوتے ہی اتوار کو اپنا طے شدہ دورہ پاکستان ملتوی کر دیا تھا اور اب وہ جمعرات کو اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔ توقع ہے کہ اس دورے میں موجودہ صورتحال پر بھی بات چیت کی جائے گی۔