پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں دیہی علاقوں میں بنیادی صحت کی سہولتوں کی فراہمی پر مامور ہزاروں خواتین صحت ورکرز کو کئی ماہ سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔
پاکستانی کشمیر کے محکمہ صحت عامہ میں خدمات انجام دینے والی تین ہزار سے زائد خواتین صحت کارکنوں نے تنخواہوں کی عدم میں تاخیر کے خلاف احتجاج میں 20 نومبر سے شروع ہونے والی انسداد پو لیو مہم کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے
خواتین صحت ورکرز 1994 میں وفاقی حکومت کے شروع کر دہا قومی پروگرام برائے خاندانی منصوبہ بندی و بنیادی صحت میں خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔
سن 2014 میں ان کی ملازمت کو مستقل کر دیا گیا تھا، لیکن فنڈز کی کمی کے باعث تنخواہوں کی باقاعدگی سے ادائیگی کا مستقل بندوبست نہ ہو سکا ۔
وفاقی حکومت کی طرف سے اس پروگرام کو 2012 میں این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کے سپرد کر دیا گیا۔لیکن این ایف سی ایوارڈ کا پاکستانی کشمیر پر إطلاق نہ ہونے کی وجہ سے صوبوں کے برابر مالی وسائل مہیا نہ ہو نے کے باعث لیڈی ہیلتھ ورکرز کو تنخواہوں کی باقاعدہ ادائیگی نہیں ہو پا رہی۔
خواتین صحت ورکرز کے حقوق کے لیے کام کرنے والی یثرب بشیر کاظمی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 2014 سے انہیں کئی کئی ماہ تک تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی جارہی جس سے ہیلتھ ورکرز کو معاشی مشکلات پیش آ رہی ہیں ۔
اس سے قبل بھی تنخواہوں کی تاخیر سے ادائیگی کے خلاف گذشتہ ماہ بھی مظفرآباد میں احتجاجی دھرنا ہوا تھا۔
محکمہ صحت عامہ کی پروگرام کوآرڈینیٹر برائے خاندانی منصوبہ بندی و بنیادی صحت ڈاکٹر فرحت تصدق نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تنخواہوں کی جلد ادائیگی کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔
گذشتہ برس پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی نے لیڈی ہیلتھ ورکرز کی ملازمت کو مستقل کرنے کے لئے قانون منظور کیا گیا تھا لیکن نخواہوں کی ادائیگی کے لئے مالی وسائل مختص نہیں کیے گئے۔