افغانستان میں زیرِتعلیم پاکستانی طالبات: 'ہمیں اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے'

"افغانستان میں خواتین کے لیے اعلٰی تعلیم پر پابندی کی وجہ سے اب میں وہاں اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتی۔ پاکستان میں نجی میڈیکل کالجز کے تعلیمی اخراجات بہت زیادہ ہیں، اس لیے میں نے افغانستان کے میڈیکل کالج میں داخلہ لیا تھا۔"

یہ کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنی والی ارم روحان کا جو کابل کے آریانا میڈیکل کالج میں دوسرے سال کی طالبہ تھیں۔

طالبان حکومت کی جانب سے خواتین کے لیے اعلٰی تعلیم کے دروازے بند ہونے کے باعث ارم سمیت درجنوں طالبات نے اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ بدھ کو ا سلام آباد میں افغان سفارت خانے کے سامنے احتجاج کیا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ارم کا کہنا تھا کہ خواتین کی تعلیم پر پابندی عائد کرنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اس پابندی کی وجہ سے ہمیں اپنا مستقبل اب تاریک نظر آتا ہے۔

طالبان حکومت کے اس اقدام کی وجہ سے خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والی درجنوں طالبات کا مستقبل غیر یقینی ہو گیا ہے۔ افغانستان میں میڈیکل کی تعلیم کے اخراجات نسبتاً کم ہونے کے باعث درجنوں پاکستانی طلبہ وہاں زیرِ تعلیم ہیں جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔

بدھ کو ان طالبات نے اپنے اہلِ خانہ اور سماجی کارکنوں کے ہمراہ اسلام آباد میں افغان سفارت خانے کے باہر احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ افغانستان میں خواتین کی اعلٰی تعلیم پر عائد پابندی ہٹائی جائے۔

احتجاج میں شریک طالبات اور ان کے والدین نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا کہ اگر افغان حکام خواتین کی تعلیم پر عائد پابندی ختم نہیں کرتے تو ان طالبات کو پاکستان کے تعلیمی اداروں میں تعلیم جاری رکھنے کی سہولت فراہم کی جائے۔

Your browser doesn’t support HTML5

افغانستان میں زیرِتعلیم پاکستانی طالبات کے مستقبل پر سوالیہ نشان


احتجاج میں شریک ایک طالبہ کی والدہ مسز فرمان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں زیر تعلیم زیادہ تر طالبات کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے اور یہ افغانستان میں چھ سالہ ایم ڈی میڈیکل پروگرام جے تحت زیرِ تعلیم تھیں۔

اُن کے بقول ان میں سے کوئی طالبہ تیسرے، کوئی چوتھے تو کوئی پانچویں سال میں تھیں اور ان کے فائنل کے سمسٹر کے امتحان ہونے والے تھے کہ وہاں خواتین کی تعلیم پر پابندی عائد کر دی گئی۔

مسز فرمان نے حکومتِ پاکستان سے اپیل کی کہ ان طالبات کو پاکستان کے سرکاری میڈیکل کالجز میں ایڈجسٹ کیا جائے کیوں کہ یہ پاکستان کے نجی میڈیکل کالجز کی فیسیں ادا نہیں کر سکتیں۔ لہذٰا ان بچیوں کا مستقبل خراب ہونے سے بچایا جائے۔

'افغان معاشرے میں باہنر خواتین کی ضرورت ہے'

افغانستان کے میڈیکل کالج کے دوسرے سال کی طالبہ ازکیٰ زیب کہتی ہیں کہ افغان معاشرے کو باہنر خواتین کی ضرورت ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں خواتین ڈاکٹرز کی ضرورت ہے۔ لہذٰا طالبان حکام کو اس اہمیت سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔

جلال آباد کی ایک نجی یونیورسٹی میں میڈیکل کی طالبہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کابل، جلال آباد اور دیگر شہروں کے میڈیکل کالجز میں لگ بھگ 100 پاکستانی طالبات کئی برسوں سے زیرِ تعلیم ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ان میں سے کئی طالبات تیسرے، چوتھے یا پانچویں سمسٹر میں تھیں اور ان کے والدین ان کی تعلیم پر بھاری سرمایہ خرچ کر چکے ہیں۔

اُن کے بقول افغانستان کے میڈیکل کالجز میں زیرِ تعلیم زیادہ تر پاکستانی طالبات کا تعلق پشاور، سوات، دیر، بونیر، صوابی اور نوشہرہ سے ہے۔

سوات کے علاقے خوازہ خیلہ سے تعلق رکھنے والے محمد فاروق خان کا ایک بیٹا اور بیٹی افغانستان کے سرحدی شہر جلال آباد کے ایک نجی میڈیکل کالج میں زیرِ تعلیم ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

طالبان کے کنٹرول کے بعد ملک چھوڑنے والی افغان خواتین اب کیا رائے رکھتی ہیں؟

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے فاروق خان نے طالبان حکومت کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے نہ صرف طالبات کا مستقبل تباہ ہو گا، بلکہ سینکڑوں والدین جنہوں نے اپنی جمع پونجی بچیوں کی تعلیم پر خرچ کی وہ بھی ضائع چلی جائے گی۔

فاروق خان نے حکومتِ پاکستان سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ طالبان حکام سے اس حوالے سے بات کریں اور انہیں خواتین کی اعلٰی تعلیم بحال کرنے پر قائل کریں۔

خیبر پختونخوا حکومت کا مؤقف

خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلی کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف کہتے ہیں کہ صوبائی حکومت ان طالبات اور ان کے والدین کی تشویش سے آگاہ ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے محمد علی سیف کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے طالبان حکام سے بات کی جائے گی۔

اُن کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کی کوشش ہے کہ افغانستان میں زیرِ تعلیم طالبات کا مسئلہ خوش اسلوبی سے حل ہو جائے۔

خیال رہے کہ طالبان حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ خواتین کی تعلیم کے معاملات کو شریعت کے مطابق ڈھالنے کے بعد خواتین کی اعلٰی تعلیم کے معاملے پر کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔