نیپال کے کوہ پیماؤں کی جانب سے حال ہی میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی 'کے ٹو' موسمِ سرما میں سر کر کے عالمی ریکارڈ قائم کیا گیا۔ تاہم اب پاکستانی کوہ پیما جن میں باپ، بیٹا اور فن لینڈ سے تعلق رکھنے والا ایک سیاح شامل ہے۔ بغیر آکسیجن کے یہ چوٹی سر کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
دسمبر کے وسط میں شروع ہونے والے اس پروگرام میں دنیا بھر کے 18 ممالک سے تقریباً 60 کوہ پیما حصہ لے رہے ہیں۔ اگرچہ 10 نیپالی کوہ پیماؤں نے کے-ٹو کی چوٹی سر کر لی ہے تاہم توقع ہے کہ یہ مہم دو ماہ تک جاری رہے گی۔
اس مہم میں پاکستان کی جانب سے محمد علی سد پارہ اپنے بیٹے ساجد علی سد پارہ بھی شامل ہیں اور وہ یہ مشن آکسیجن کے بغیر مکمل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے ساتھ فن لینڈ سے تعلق رکھنے ولے مایہ ناز کوہ پیما جان اسنوری بھی ہیں۔
کے ٹو کی کُل اونچائی 8611 میٹر ہے جو کہ دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سے صرف 200 میٹر کم ہے۔
اس کا شمار دنیا کے سب سے خطرناک ترین پہاڑوں میں ہوتا ہے۔ ایک محتاظ اندازے کے مطابق واپسی پر ہر چار کوہ پیماؤں میں سے ایک کی موت واقع ہو جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے سر کرنے کی کوشش میں اب تک 87 کوہ پیما ہلاک ہو چکے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
الپائن کلب آف پاکستان کے سیکریٹری کرار حیدری کا کہنا ہے کہ پروگرام کے مطابق پاکستانی کوہ پیماؤں پر مشتمل ٹیم نے پیر کی صبح کے ٹو کو سر کرنا تھا تاہم اتوار کی شب موسم کی خرابی کے باعث انہیں نیچے اترنا پڑا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ اب محمد علی سد پارہ اور ان کے بیٹے ایڈوانس بیس کیمپ میں جا رہے ہیں جہاں وہ کچھ دن مزید قیام اور آرام کریں گے۔
کرار حیدری کے مطابق کوہ پیما عموماً ہلکے وزن کے ساتھ اُوپر جاتے ہیں تاکہ آسانی سے اوپر کی جانب چڑھ سکیں۔ اب جب کہ موسم خراب ہے تو زیادہ دیر تک اوپر نہیں رُکا جا سکتا۔ کیوں کہ کھانے پینے کا سامان نیچے بیس کیمپ میں ہی میسر ہوتا ہے۔
کے ٹو کو پہلی مرتبہ 1954 میں موسمِ گرما میں اطالوی کوہ پیماؤں نے سر کیا تھا۔ جس کے بعد متعدد کوششیں ہوئیں۔ لیکن 23 سال بعد 1977 میں پاکستان اور جاپان کے مشترکہ مشن نے اسے سر کیا۔
پاکستان کی جانب سے اشرف امان اس مشن کا حصہ تھے۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کسی بھی پہاڑ کی چوٹی تک پہنچنے کے لیے تین چیزیں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ تجربہ، سازوسامان اور موسم۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اشرف امان نے مزید بتایا کہ موسمِ گرما اور سرما دونوں میں موسم بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ ان کے مطابق موسمِ سرما میں کوئی بھی چوٹی سر کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ کیوں کہ برف کی تہہ ٹھوس ہوتی ہے۔
اُن کے بقول موسمِ گرما میں برف نرم ہوتی ہے اور اس میں پاؤں دھنسنے سے بہت طاقت ضائع ہوتی ہے۔
کے ٹو کو سر کرنے کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ان کی خوشی زیادہ دیر تک نہیں رہی کیوں کہ فراسٹ بائٹ کی وجہ سے ان کی پاؤں کی انگلیوں کو کاٹنا پڑا۔
انہوں نے مزید کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں کوہ پیمائی کو کھیل کا درجہ حاصل نہیں ہے اور حکومت کی سرپرستی کے بغیر لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اس میں شامل ہوتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جب انہوں نے ماؤنٹ ایورسٹ کے لیے اپلائی کیا تو ان سے 60 ہزار ڈالر طلب کیے گئے۔ اس کی وجہ سے وہ ماؤنٹ ایورسٹ نہیں سر کر سکے۔ اشرف امان کے مطابق ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنا قدرے آسان ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر پاکستان میں کوئی مناسب ٹریننگ اسکول ہوتا تو آج نیپالی کوہ پیماؤں کے بجائے موسمِ سرما میں کے ٹو سر کرنے کا اعزاز پاکستان کے پاس ہوتا۔
الپائن کلب کے سیکریڑی کے مطابق اب 29 جنوری کو فن لینڈ، سوئٹزرلینڈ اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے کوہ پیماؤں کے ساتھ ہی محمد علی سد پارہ کی ٹیم ایک مرتبہ پھر کے-ٹو کو سر کرنے کی کوشش کرے گی۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر فروری کے پہلے ہفتے میں کوہ پیما اس چوٹی کو سر نہیں کر لیتے تو بعد کا موسم مسلسل خراب رہنے کی توقع ہے۔