"ایک دفعہ میں نے شہروز سے کہا تھا کہ بیٹا اگر یہ تمہاری خوشی نہ ہوتی تو میں کبھی اور کسی بھی صورت میں تمھیں پہاڑوں پر نہ بھیجتی۔" یہ کہنا ہے کہ نادیہ کاشف کا جن کے بیٹے شہروز کاشف نے منگل کو صرف 19 برس کی عمر میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے-ٹو کو سر کر کے نیا ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔
دو ماہ قبل شہروز کاشف نے دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایوریسٹ سر کر کے سب سے کم عمر پاکستانی کا ریکارڈ بھی اپنے نام کیا تھا۔
کے-ٹو کا شمار دنیا کے مشکل ترین پہاڑوں میں ہوتا ہے۔ کوہ پیما کہتے ہیں کہ زیادہ تر حادثات چوٹی سے نیچے کی جانب آتے ہوئے پیش آتے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے 1977 میں پہلی مرتبہ کے-ٹو کو اشرف امان نے سر کیا تھا۔
کوہ پیمائی کے لیے مہم جوئی کے انتظامات کرنے والی کمپنی الپائن کلب آف پاکستان کے سیکرٹری کرار حیدری کے مطابق اب تک کے-ٹو کو سر کرنے کی کوشش میں 90 سے زائد کوہ پیما جان گنوا چکے ہیں۔
شہروز کاشف کے والدین نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اگر انہیں کوہ پیمائی کے اس پُر خطر کھیل کے بارے میں پہلے معلوم ہوتا تو وہ شاید اپنے بیٹے کو کبھی اس کی اجازت نہیں دیتے۔
ان کی والدہ نادیہ کاشف کے مطابق جب وہ اپنے بیٹے کو کوہ پیمائی کی مہم کے لیے رخصت کرتی ہیں تو ان کا دل رو رہا ہوتا ہے۔ لیکن سب سے بڑی بات یہ کہ انہیں اللہ کے ساتھ ساتھ اپنے بیٹے کی ہمت پر بہت زیادہ یقین ہے۔
شہروز سیکنڈ ایئر کے طالب علم ہیں۔ وہ آٹھ ہزار میٹرز سے زائد دنیا کی چودہ چوٹیاں سب سے کم عمر میں سر کرنے کا ریکارڈ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ تاکہ گریجویشن اور عالمی ریکارڈ ساتھ ساتھ مکمل ہو۔
واضح رہے کہ اس وقت یہ ریکارڈ ایک نیپالی کوہ پیما کا ہے جس نے یہ کارنامہ 23 سال کی عمر میں سر انجام دیا ہے۔
شہروز کے والد کاشف سلمان کا تعلق انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے سے ہے۔ ان کے چار بچے ہیں جن میں سے شہروز سب سے بڑے ہیں۔ وہ لاہور کے رہائشی ہیں۔
کاشف سلمان کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان میں پیدا ہونے والے افراد، کوہ پیماؤں کی جسامت زیادہ مضبوط ہوتی ہے۔ شہروز کا تعلق چوں کہ میدانی علاقے سے ہے اس لیے اسے محنت بھی زیادہ کرنا پڑی ہے۔
کاشف سلمان نے مزید بتایا کہ شہروز جب گیارہ برس کے تھے تو وہ اپنے آفس کا ٹرپ لے کر شوگران گئے۔ لاڈلہ بیٹا ہونے کی بنا پر وہ ہمیشہ اسے اپنے ساتھ لے کر جاتے تھے۔ جس کا نقصان یہ ہوا کہ گیارہ سال کی عمر تک وہ نہ تو کسی کے ساتھ اکیلے کھیل سکتے تھے اور نہ بات چیت کر سکتے تھے۔
ان کے بقول، شوگران میں کیمپنگ ان کو بہت اچھی لگی۔ بادلوں سے ڈھکے پہاڑ، کھلے آسمان تلے ستاروں کے نظارے، تازہ ہوا کے جھونکوں نے جیسے شہروز کی زندگی بدل ڈالی۔
کاشف سلمان کا کہنا تھا کہ شوگران کے سیاحتی دورے کے بعد شہروز میں کوہ پیمائی کا شوق پیدا ہوا۔ تاہم انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ کب یہ شوق جنونی کیفیت میں بدل جائے گا۔
ان کے بقول 'لاہور میں رہنا، متوسط خاندان سے ہونا اور پہاڑوں میں سونا، عجیب لگتا ہے۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہر ماں باپ کے لیے ان کی اولاد غیر معمولی ہوتی ہے۔ لیکن جب وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ کبھی کبھی اپنے بچوں کے متعلق بات کر رہے ہوتے ہیں تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ ان کا بیٹا، شہروز ایک 'سپر ہیومن' ہے۔
کاشف سلمان کا کہنا تھا کہ ان کے تمام گھر والے سوموار کی صبح سے مسلسل جاگ رہے ہیں۔ کیوں کہ وہ شہروز کی پوزیشن کو جی پی ایس پر فالو کر رہے تھے۔ رات کو جب شہروز باٹل نیک کراس کر رہے تھے تو وہ خاصے پریشان تھے کیوں کہ چند ماہ قبل پاکستانی کوہ پیما محمد علی سد پارہ اور ان کے دو ساتھیوں کی اسی مقام پر ہلاکت ذہنوں میں تازہ تھی۔
شہروز کے والد نے بتایا کہ منگل کی صبح آٹھ بج کر دس منٹ پر جب انہوں نے اپنے بیٹے کو کے-ٹو کو سر کرنے کے بعد پاکستانی پرچم لہراتے ہوئے لائیو اسٹریمنگ کے ذریعے دیکھا تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔
ان کے بقول وہ اپنی کمائی میں سے ایک کروڑ سے زائد روپے اب تک اپنے بیٹے کے شوق پر خرچ کر چکے ہیں۔
کاشف سلمان کا کہنا ہے کہ وہ جب اپنے بیٹے کی پہاڑوں پر لی گئیں تصاویر دیکھتے ہیں تو ان کے بیٹے کے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی ہے۔ جسے دیکھ کر ان کا اور ان کی اہلیہ کا دل بڑا ہو جاتا ہے۔ اور وہ عہد کرلیتے ہیں کہ جب شہروز اتنا مضبوط ہے تو ہمیں بھی اس کے ساتھ مضبوط ہونا پڑے گا۔
شہروز کے والد کہتے ہیں کہ ان کا بیٹا گزشتہ آٹھ برس سے دنیا کے مختلف پہاڑ سر کرنے کے لیے جا رہا ہے۔ اور وہ سال میں تین سے چار ماہ ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "گزشتہ دنوں اس کی والدہ نے اسے بیس کیمپ پر ویڈیو کال کی تو پوچھا کہ شہروز تم گھر کے لیے اداس تو نہیں ہوئے؟ اس نے پہاڑوں کی جانب کیمرہ گھمایا اور بتایا کہ یہ میرا اصل گھر ہے۔ جس پر ہم ہنس پڑے کہ اچھا تم نے گھر بھی بدل دیا ہے۔"