امریکہ کے کچھ شہروں میں بے گھر افراد کا مسئلہ اتنا عام سا دکھائی دیتا ہے کہ روزانہ کے معمول میں ہم میں سے کم ہی لوگ شہروں کے پارک یا گلی کے کنارے پر بیٹھے ایسے کسی فرد کو رک کر اس کا حال پوچھتے ہیں۔
ایسا ہی ایک کردار پاکستانی امریکی فلمساز بابر احمد کی نئی فلم "تکون اولم" کا حصہ ہے جو پر رونق شہر میں سڑک کے کنارے بیٹھے ہوئے ایک تنہا بے گھر شخص سے انسانی ہمدردی کا ناطہ جوڑتا ہے۔
یہ کردار ایک بچہ ہے جو ایک بے گھر بوڑھے سابقہ فوجی کو اپنی ماں کے ساتھ راستے میں آتے جاتے دیکھتا ہے۔ ایک دن ویت نام جنگ کے اس ویٹرن کو گلی کے کنارے بے ہوش پڑے دیکھ کر اس کی مدد کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اور اس طرح یہ بچہ ایک مختصر مگر جاندار فلم سے انسانی ناطوں کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔
فلم کا ٹائٹل "تکوں اولم" عبرانی زبان کا لفظ ہے۔ تکون اولم باہمی انسانی احساسات پر مبنی ایک ایسا نظریہ ہے جس کے تحت بھلائی اور رحم دلی کے اعمال کے ذریعے منقسم دنیا کو آپس میں جوڑا جا سکتا ہے۔
احمد کی پہلی دو فیچر فلمیں کامیاب رہیں۔ ان کی "جینیس" کے نام سے 2003 میں ببے والی پہلی فلم اور 2014 میں بننے والی دوسری فلم "ایمکا اینڈ تھری گولڈن رولز" کی کئ سظحوں پر پزیرائی ہوئی اور کئی انعامات بھی ملے۔
اپنی نئی فلم تکون اولم کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ان کو اس مختصر افسانوی فلم کا خیال حقیقی زندگی کے ایک دلخراش واقع سے آیا، جب ان کے بھائی نے انہیں بتایا کہ دارالحکومت کی ایک گلی میں ایک بے گھر آدمی گرا ہوا تھا اور اس کے پاس سے گزرنے والے لوگوں میں سے کسی نے پولیس کو اس کی مدد کے لیے مطلع نہ کیا۔
ان کے بھائی نے پولیس کو اطلاع دینے کے بعد ان سے اس واقع کا ذکر کیا۔
احمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا:
"مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں بھی ان لوگوں میں سے ہوں جو اس شخص کو بے یار و مددگار چھوڑ کر اپنے اپنے کاموں میں مصروف اس کے پاس سے گزرتے رہے."
فلم، جسے حال ہی میں نیوجرسی کے مشہور "گارڈن سٹیٹ فلم فیسٹیول" نے نمائش کے لیے منتخب کیا ہے، مکالموں کی بجائے مناظر کے ذریعے تشبہات اور استعاروں میں کہانی بتاتی ہے اور یوں انسانی رویوں اور جذبوں کی اثر آفرین عکاسی کرتی ہے۔
احمد کہتے ہیں:
"اس فلم میں بے گھر فرد کی مدد کرنے والا بچہ امید کی ایک کرن ہے کہ زندگی کی تمام تر مصروفیات میں معاشرے میں ایسے لوگ موجود ہیں جو انسانیت کی سطح پر سوچتے اور عمل کرتے ہیں۔"
احمد نے، جن کی فلمیں نیٹ فیلکس جیسے پلیٹ فارمز سے عوام تک پہنچائی جا چکی ہیں، اس کہانی کو حقیقت کے قریب ہو کر فلمانے پر زور دیا جس کی ایک مثال بچے کے چہرے پر کرونا کے ماحول میں ماسک پہننا بھی شامل ہے۔
فلم میں بے گھر افراد کے مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کرونا بحران نے گھر کے حصار سے محروم ان افراد کو کہیں زیادہ غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ اور گزشتہ ایک سال میں بہت سے بے گھر افراد اس موذی مرض کے آگے اپنی زندگی کی بازی ہار گئے ہیں۔
قومی سطح پر کام کرنے والی تنظیم "نیشنل الائنس ٹو اینڈ ہوم لیس نیس" کے مطابق واشنگٹن ڈی سی ان شہروں میں شامل ہے جہاں بےگھر افراد کی شرح بہت اونچی ہے۔ اور ڈی سی ہی میں فلم بند کی گئی اس کہانی میں اداکاروں نے اس مسئلہ کو اجاگر کیا ہے۔ بے گھر فرد کا کردار منجھے ہوئے اداکار الیگزینڈر بارنٹ نے ادا کیا ہے۔ وہ اس سے پہلے ولیم شیکسپیر کے عالمی شہرت یافتہ ڈراموں کنگ لیئر اور میکبیتھ میں کام کر چکے ہیں جب کہ بچے کا کردار الیگزینڈر فاکس نے ادا کیا ہے۔
بابر احمد کی فلم کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ وہ بحیثیت ایک پاکستانی نژاد امریکی اور تارکین وطن کے ایک قومی مسئلہ کو اجاگر کر رہے ہیں۔
"عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ تارکین وطن محض اپنے اپنے ممالک یا خطے کے مسائل پر کام کرتے ہیں۔ مجھے ایسا لگا کہ ایسا تاثر بہت سے معانی رکھتا ہے۔ یہ فلم اس حوالے سے بھی ایک کوشش ہے کہ تارکین وطن امریکی مسائل کا اتنا ہی ادراک اور درد رکھتے ہیں جیسے مقامی لوگ، فلم ساز اور انڈسٹری سے وابستہ کہانی نویس۔"