پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ جنیوا اور نیویارک میں اپنے سفارتی مشنز کو آگاہ کر دیا گیا ہے اور انھوں نے اس پر کام شروع کر دیا ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان اپنی سرزمین پر مبینہ امریکی ڈرون حملوں کا معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھانے کے لیے تیاری کر رہا ہے اور اس ضمن میں متعلقہ سفارت خانوں اور سفراء کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔
جمعرات کو اسلام آباد میں ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں ترجمان دفتر خارجہ اعزاز احمد چودھری نے بتایا کہ رواں ہفتے وزیراعظم نواز شریف کی صدارت میں ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں حکومت سے سفارش کی گئی تھی کہ وہ ڈرون حملوں کے معاملے کو عالمی تنظیم میں اٹھانے کے لیے امکانات کا جائزہ لے۔
’’ اس ضمن میں ہم نے فوری طور پر جنیوا اور نیویارک میں اپنے مشنز کو الرٹ کر دیا ہے اور اس پر کام شروع کر دیا گیا ہے اور اس پر یقیناً عمل درآمد کریں گے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ ڈرون حملوں پر نہ تو امریکہ اور نہ ہی کسی اور ملک سے کوئی معاہدہ موجود ہے اور ان کارروائیوں کو پاکستان ہمیشہ سے اپنی خودمختاری و سالمیت اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتا آیا ہے۔
ترجمان اعزاز چودھری کا کہنا تھا کہ بعض دیگر ممالک بھی یہ سمجھتے ہیں کہ بین الریاستی معاملات میں ڈرون کا استعمال نقصان دہ ہے۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں خصوصاً شمالی و جنوبی وزیرستان میں 2004ء کے اواخر میں مبینہ امریکی ڈرون حملوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ باور کیا جاتا ہے کہ ان علاقوں میں القاعدہ اور طالبان سے منسلک شدت پسندوں نے محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں اور یہ عناصر سرحد پار افغانستان میں امریکہ اور اس کی اتحادی افواج پر ہلاکت خیز حملے کرتے ہیں۔
امریکہ ڈرون حملوں کو دہشت گردی کے خلاف ایک موثر ہتھیار گردانتا ہے جب کہ پاکستان اسے انسداد دہشت گردی کی کوششوں کے لیے مضر اور امریکہ مخالف جذبات کو ہوا دینے کا سبب قرار دیتا ہے۔
گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون بھی دورہ پاکستان کے موقع پر اس خیال کا اظہار کر چکے ہیں کہ ہتھیاروں سے لیس ڈرون کا استعمال کسی بھی دوسرے ہتھیار کی طرح بین الاقوامی قوانین کے تابع ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ حملے کی صلاحیت نہ رکھنے والے ڈرون محض محو پرواز کیمرے ہوتے ہیں لیکن ان کے بقول ہتھیاروں سے لیس ایسے طیارے ’’ ایک مختلف معاملہ ہے‘‘۔
امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری کے گزشتہ ماہ دورہ پاکستان کے دوران بھی حکام نے یہ معاملہ اُن کے سامنے اٹھایا تھا جس کے بعد مسٹر کیری کا کہنا تھا کہ اُن کا ملک اس معاملے پر پاکستان کے موقف سے اچھی طرح آگاہ ہے۔ تاہم امریکی وزیر خارجہ نے ایسے حملے بند کرنے سے متعلق کوئی واضح بیان نہیں دیا تھا۔
جمعرات کو اسلام آباد میں ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں ترجمان دفتر خارجہ اعزاز احمد چودھری نے بتایا کہ رواں ہفتے وزیراعظم نواز شریف کی صدارت میں ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں حکومت سے سفارش کی گئی تھی کہ وہ ڈرون حملوں کے معاملے کو عالمی تنظیم میں اٹھانے کے لیے امکانات کا جائزہ لے۔
’’ اس ضمن میں ہم نے فوری طور پر جنیوا اور نیویارک میں اپنے مشنز کو الرٹ کر دیا ہے اور اس پر کام شروع کر دیا گیا ہے اور اس پر یقیناً عمل درآمد کریں گے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ ڈرون حملوں پر نہ تو امریکہ اور نہ ہی کسی اور ملک سے کوئی معاہدہ موجود ہے اور ان کارروائیوں کو پاکستان ہمیشہ سے اپنی خودمختاری و سالمیت اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتا آیا ہے۔
ترجمان اعزاز چودھری کا کہنا تھا کہ بعض دیگر ممالک بھی یہ سمجھتے ہیں کہ بین الریاستی معاملات میں ڈرون کا استعمال نقصان دہ ہے۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں خصوصاً شمالی و جنوبی وزیرستان میں 2004ء کے اواخر میں مبینہ امریکی ڈرون حملوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ باور کیا جاتا ہے کہ ان علاقوں میں القاعدہ اور طالبان سے منسلک شدت پسندوں نے محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں اور یہ عناصر سرحد پار افغانستان میں امریکہ اور اس کی اتحادی افواج پر ہلاکت خیز حملے کرتے ہیں۔
امریکہ ڈرون حملوں کو دہشت گردی کے خلاف ایک موثر ہتھیار گردانتا ہے جب کہ پاکستان اسے انسداد دہشت گردی کی کوششوں کے لیے مضر اور امریکہ مخالف جذبات کو ہوا دینے کا سبب قرار دیتا ہے۔
گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون بھی دورہ پاکستان کے موقع پر اس خیال کا اظہار کر چکے ہیں کہ ہتھیاروں سے لیس ڈرون کا استعمال کسی بھی دوسرے ہتھیار کی طرح بین الاقوامی قوانین کے تابع ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ حملے کی صلاحیت نہ رکھنے والے ڈرون محض محو پرواز کیمرے ہوتے ہیں لیکن ان کے بقول ہتھیاروں سے لیس ایسے طیارے ’’ ایک مختلف معاملہ ہے‘‘۔
امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری کے گزشتہ ماہ دورہ پاکستان کے دوران بھی حکام نے یہ معاملہ اُن کے سامنے اٹھایا تھا جس کے بعد مسٹر کیری کا کہنا تھا کہ اُن کا ملک اس معاملے پر پاکستان کے موقف سے اچھی طرح آگاہ ہے۔ تاہم امریکی وزیر خارجہ نے ایسے حملے بند کرنے سے متعلق کوئی واضح بیان نہیں دیا تھا۔