پاکستان میں اس سال مون سون کے دوران معمول سے زیادہ بارشوں اور سیلابوں کی پیش گوئی کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے "این ڈی ایم اے" کے زیر اہتمام جمعرات کو اسلام آباد میں کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس میں تمام متعلقہ اداروں نے اس ضمن میں اپنی تیاری اور حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا۔
محکمہ موسمیات کے مطابق مون سون کے موسم میں پنجاب، خیبر پختونخواہ، سندھ، کشمیر اور بلوچستان کے شمال مشرق میں معمول سے دس سے بیس فیصد زیادہ بارشیں ہو سکتی ہیں جب کہ دریاؤں کے قریبی علاقوں میں شدید بارشوں کے باعث ان آبی گزرگاہوں میں سیلابی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔
پاکستان کو 2010ء سے تواتر کے ساتھ شدید سیلابوں کا سامنا رہا ہے جس سے آبادی کا ایک بڑا حصہ متاثر ہونے کے علاوہ لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں بھی تباہ ہو چکی ہیں۔
سیلابوں کے باعث سڑکوں اور پلوں سمیت بنیادی ڈھانچہ متاثر ہونے کی وجہ سے بھی لوگوں تک امداد کی فراہمی میں خلل کے ساتھ ساتھ ان کی محفوظ مقامات پر منتقلی میں بھی رکاوٹیں پیدا ہوتی رہی ہیں۔
شاہراہوں کی تعمیر اور دیکھ بھال کے قومی ادارے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے عہدیداروں نے کانفرنس کے دوران بتایا کہ شاہراہ قراقرم، گلگت اسکردو، دیر چترال، راولپنڈی مری مظفرآباد اور مانسہرہ ناران شاہراہوں سے متعلق انتظامات کیے جا چکے ہیں جب کہ ان سڑکوں پر کسی بھی ہنگامی صورتحال اور نقصان کی صورت میں فوج کا انجینیئرنگ کا شعبہ مستعدی سے اپنی کارروائی کرنے کے لیے چوکس ہوگا۔
مون سون کی بارشوں اور پھر گلیشیئرز کے پگھلنے سے دریاؤں میں طغیانی کا بھی خطرہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے متعلقہ اداروں نے اپنے اپنے انتظامات سے کانفرنس کے شرکا کو آگاہ کیا۔
اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ خطرے والے علاقوں میں آبادی کو کسی بھی ہنگامی صورتحال سے قبل انتباہی پیغامات موبائل فون پر بھیجے جائیں تاکہ وہ چوکس رہیں۔
رواں سال کے اوائل میں بھی پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاوہ پنجاب کے مختلف علاقوں میں غیرمعمولی طور پر شدید بارشوں کی وجہ سے بھی درجنوں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے جب کہ رواں ماہ کے اوائل میں پشاور اور اسلام آباد میں شدید طوفانی ہوائیں 14 افراد کی ہلاکت کا سبب بنی تھیں۔
ماہرین موسموں کے اس غیرمعمولی تغیر کو ماحولیاتی تبدیلی کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت کو اس ضمن میں آئندہ کے لیے لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔