پاکستان کے قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے 'این ڈی ایم اے' کے مطابق، گزشتہ تین روز کے دوران پاکستان کے مختلف علاقوں بشمول پاکستان کے زیرِ انتطام کشمیر میں بارشوں اور برفباری کی وجہ سے اب تک 76 افراد ہلاک، جب کے 35 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
اسلام آباد میں وائس آف امریکہ کے نمائندے محمد جلیل اختر سے گفتگو کرتے ہوئے این ڈی ایم اے کے ترجمان بریگیڈیئر وسیم الدین نے بتایا کہ گزشتہ تین روز کے دوران بارشوں اور برفانی تودے گرنے سے سب سے زیادہ ہلاکتیں پاکستان کے زیرِ انتطام کشمیر میں ہوئیں، جہاں 55 افراد ہلاک ہوئے جب کہ بلوچستان میں بارشوں کی وجہ سے 20 اور خیر پختونخوا میں ایک شخص ہلاک ہوا ہے۔
وسیم الدین کا کہنا ہے کہ اب تک پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی نیلم وادی میں 'سرگن' کے مقام پر برفانی تودے گرنے سے 41 افراد ہلاک ہوئے۔
پاکستان میں ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے والے ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔
مظفر آباد میں وائس آف امریکہ کے نمائندے روشن مغل کے مطابق لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر واقع بالائی وادی نیلم کے ان متاثرہ علاقوں کی طرف جانے والے راستے بھی برف باری کے باعث بند ہیں۔
پاکستانی کشمیر کے وزیر برائے اسٹیٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ احمد رضا قادری نے بتایا کہ ریسکیو ٹیمیں اور امدادی سامان متاثرہ علاقوں کی طرف بھیج دیا گیا ہے۔ لیکن، سڑک پر کئی فٹ برف پڑنے کی وجہ سے فوری طور پر وہاں پہنچنا مشکل ہے۔
انہوں نے ہلاکتوں میں اضافے کے خدشے کا بھی اظہار کیا ہے۔
احمد رضا قادری نے بتایا کہ پاکستانی فوج کے ہیلی کاپٹر بھی امدادی کارروائیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بھی بارش اور برف باری کے باعث ہونے والی ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
وادی نیلم سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے رکن اور سپیکر شاہ غلام قادر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وادی نیلم کی ضلعی انتظامیہ متاثرہ علاقوں میں پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ زمینی رابطہ فوری طور پر بحال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پنجاب کے بالائی علاقوں، بلوچستان، خیبرپختونخوا اور شمالی علاقہ جات میں بھی گزشتہ تین روز سے وقفے وقفے سے بارش اور برف باری کا سلسلہ جاری ہے، جس سے سردی کی شدت میں ابھی اضافہ ہو گیا ہے۔
دریں اثنا، پروونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) بلوچستان کے حکام کا کہنا ہے کہ برف باری کے باعث صوبے کے مختلف مقامات پر پھنسے افراد کو بحفاظت نکال لیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ برف باری کے باعث مسلم باغ اور کان مہترزئی میں متعدد مسافر بسیں اور گاڑیاں راستے بند ہونے سے پھنس گئی تھیں۔
حکام کے مطابق، امدادی کارروائیوں میں فرنٹئیر کور اور دیگر امدادی ٹیموں نے حصہ لیا اور 500 سے زائد مسافروں کو بحفاظت نکال کر محفوظ مقامات میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
کوئٹہ میں وائس آف امریکہ کے نمائندے عبدالستار کاکڑ کے مطابق، پی ڈی ایم اے نے مستونگ، قلعہ عبداللہ، زیارت، ہرنائی اور پشین میں ہنگامی صورتِ حال بھی نافذ کر دی ہے۔
خیبر پختونخوا میں بھی بارش اور برف باری کے باعث مختلف رابطہ سڑکیں بند ہو گئی ہیں۔ شاہراہ ریشم کو بھی مختلف مقامات پر بند کر دیا گیا ہے۔
ہزارہ ڈویژن کی مختلف سڑکیں بھی برف باری کے باعث بند ہیں۔ حکام نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ان علاقوں میں غیر ضروری سفر سے گریز کریں۔
پاکستان کے محکمہ موسمیات کے عہدے دار ڈاکٹر ظہیر احمد بابر کا کہنا ہے کہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ میں سب سے زیادہ 87 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا کے علاقے کالام میں 50 ملی میٹر اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی 50 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔
کالام میں 25 انچ جب کہ مالم جبہ اور مری میں 13 انچ برف باری ریکارڈ کی گئی۔
محکمہ موسمیات کے مطابق، مغرب کی طرف سے پاکستان میں داخل ہونے والے موسمیاتی سسٹم پاکستان میں بارشوں اور پہاڑی علاقوں میں برف باری کا باعث بن رہے ہیں۔ ڈاکٹر بابر کے بقول، پاکستان کے بعض علاقوں میں شدید بارشیں اور برف باری کا تعلق عالمی سطح پر رُونما ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں سے بھی ہے۔
محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ آئندہ دو سے تین روز میں مغربی ہواؤں کا یہ سسٹم کمزور پڑ جائے گا، جس کے بعد موسم سرد اور خشک رہے گا۔