پاکستان کی نئی حکومت بیرون ملک آباد پاکستانیوں سے یہ توقع کر رہی ہے کہ وہ اپنی سرمایہ کاری اور مہارتوں سے پاکستان کو اس کے موجودہ مسائل سے نکالنے میں مدد کر ے گی اور بیرون ملک آباد پاکستانی بھی اپنے آبائی ملک کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ہر قسم کی مدد کے لیے تیار دکھائی دیتے ہیں۔
اس وقت پاکستان کی حکومت کو جو بڑے بڑے چیلنج درپیش ہیں ان میں پانی کا دن بدن بڑھتا ہوا بحران بھی شامل ہے۔ اس بحران سے نمٹنے کے لیے بیرون ملک آباد پاکستانی یقینی طور پر ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
امریکی ریاست میری لینڈ میں واٹر ریسورسز اینڈ واٹر منیجمنٹ کی ایک کمپنی کے مالک اور پاکستان کی نیشنل انجنیئرنگ سروسز یعنی نیس-پاک کے سابق سینیر انجنیئر رضوان صدیقی نے، جو کالا باغ ڈیم کی پلاننگ اور ڈیزائنگ کا حصہ رہ چکے ہیں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں پانی کے بحران سے نمٹنے کا واحد طریقہ ہائیڈو پاور ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہی وہ ذریعہ ہے جس کی مدد سے پاکستان میں بجلی بھی پیدا ہو سکتی ہے اور سیلابی پانی کو بھی محفوظ کیا جا سکتا ہے اور پاکستان جیسے زرعی ملک میں آبپاشی کی ضروريات بھی پوری کی جا سکتی ہیں۔
رضوان صدیقی نے کہا کہ پاکستان میں بڑے ڈیم بنانا تو ضروری ہیں لیکن فوری طور پر اس مسئلے کا ایک حل مائیکرو ڈیمز ہیں۔ مائیکرو ڈیمز یا چھوٹے چھوٹے ڈیم ہر اس علاقے میں بنائے جا سکتے ہیں جہاں تھوڑی سی ڈھلوان دستیاب ہو۔
انہوں نے کہا کہ بھارت بے شمار چھوٹے ڈیم بنا چکا ہے جو پانی کو محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی بجلی کی ضروريات بھی پوری کرتے ہیں اور علاقائی زراعت کے بھی کام آتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جو ایک زرعی ملک ہے اسے اپنے پانی کی منیجمنٹ پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اس کا سب سے اہم طریقہ یہ ہی ہے کہ چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا کر پانی کو محفوظ کریں تاکہ بارشوں کے دنوں میں اور سیلابی دنوں میں پانی کو محفوظ کیا جا سکے اور گرمیوں میں یا خشک سالی کے دنوں میں اس محفوظ پانی کو استعمال کیا جا سکے۔
انہوں نے پاکستان کی نئی حکومت کو تجویز دی کہ وہ بڑے ڈیمز پر تو کام کرے ہی کیوں کہ اس کے علاوہ ا س کے پاس پانی کے بحران سے نمٹنے کا کوئی اور چارہ نہیں ہے۔ لیکن چھوٹے ڈیم بنانے پر بھی خصوصي توجہ دے جس پر سرمایہ بھی کم لگتا ہے اور جس کی پلاننگ بھی جلدی ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ میں بہت سے ایسے پاکستانی آباد ہیں جو واٹر ریسورسز اور واٹر منیجمنٹ کی پلاننگ میں شامل ہیں اور وہ یقینی طور پر پاکستان کو اپنی مہارتوں سے فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ لیکن ضرورت لیڈر شپ اور قیادت کی ہے جو انہیں متحرک کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ ورلڈ بینک، انٹر نیشنل بینک جیسے ادارے ایسے پراجیکٹس کی فنڈنگ کے لیے ہمیشہ تیار ہوتے ہیں۔
پاکستان میں پانی کے بحران پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سینٹر فار انوائرمنٹ اینڈ ڈیولپمنٹ کراچی کے ایکزیکٹو ڈائریکٹر ناصر پنہوار نے کہا کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی، گلوبل وارمنگ، بارشوں کی کمی، دریاؤں میں اور زیر زمین پانی میں کمی اس بحران کی بڑی بڑی وجوہات ہیں۔ تاہم انہوں نے بھی پانی کے استعمال کی منیجمنٹ کے فقدان کو اس بحران کی ایک وجہ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بارشوں کی کمی کی وجہ سے زیر زمین پانی کم ہو رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کا بے دریغ استعمال مسئلے کو اور بھی سنگین بنا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کیوں کہ زیر زمین پانی کے استعمال کے لیے کوئی ضابطے اور قوانین موجود نہیں ہیں اس لیے دیہی علاقوں میں کاشت کار گراؤنڈ واٹر کو ٹیوب ویلز کے ذریعے بڑے پیمانے پر بے دریغ استعمال کر رہے ہیں جو زیر زمین پانی میں کمی کی ایک بڑی وجہ بن رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ پانی کے استعمال کی منیجمنٹ پر توجہ دی جائے اور اس بارے میں مناسب ضابطے اور قوانین بنائے جائیں اور ان پر عمل درآمد کرایا جائے۔ جب کہ عام لوگوں میں پانی کے مناسب استعمال اور اس کے ضیاع کو روکنے کے بارے میں آگاہی پھیلائی جائے۔