تجزیہ کاروں نے الیکشن کمیشن کے اِس اعلان کو خوش آئند قرار دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ غیر مصدقہ ووٹروں کے نام انتخابی فہرست سے خارج کردے جائیں گے۔
’ وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سکریٹری کنور دلشاد احمد کا بھی یہی کہنا تھا کہ یہ کام ڈیٹا اور رجسٹریشن کے قومی ادارے (نادرا )کے تعاون سےہی ممکن ہوا ہے۔
کنور دلشاد نے بتایا کہ 2007ء میں جب الیکشن کمیشن نے کمپیوٹرائزڈ انتخابی فہرست تیار کی تھی اُس وقت تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ ووٹوں کا اندراج ہوا تھا۔ الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ ساڑھے پانچ کروڑ کی جو کمپیوٹرائزڈ انخابی فہرست بنائی گئی تھی اُس وقت کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ نہیں تھے۔
دراصل 2007ء میں تیار کی گئی انتخابی فہرست، کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ اور پرانے شناختی کارڈ دونوں کوملا کر تیار کی گئی تھی۔
اُنھوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا نقطہٴ نظر درست ہے کہ آپ اِن کو غیر مصدقہ نہیں کہہ سکتے، نادرا کے پاس اِس کا ریکارڈ اِس لیے نہیں تھا کیونکہ یہ پرانے شناختی کارڈ کے تحت بنے ہوئے تھے۔ اُس وقت دونوں نئے اور پرانےشناختی کارڈ موجود تھے۔
درستگی سے متعلق اقدامات کے سلسلے میں، کنور دلشاد نے کہا کہ یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے ۔اُن کے بقول، نادرا پاکستان کا سب سے بڑا اور فعال ارادہ ہے جس کے تعاون سے نئی انتخابی فہرست تیار ہو رہی ہے، اِس لیے آئندہ کسی سیاسی پارٹی کو اِس کے بارے میں تحفظات نہیں ہوں گے۔
اُن کے الفاظ میں، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور نادرا دونوں مل کر ایک ایسی کمپیوٹرائزڈ انتخابی فہرست تیار کرے گا جِس پر پوری قوم کا اعتماد ہو۔
جسٹس (ر) طارق محمود نے ہاتھ میں لیے گئے کام کو خوش آئند قرار دیا۔ تاہم، اُنھوں نے اِس اندیشے کا اظہار کیا کہ خواتین کی تصاویر کا معاملہ حائل ہوگا، کیونکہ شناختی کارڈ میں زیادہ تر خواتین کے فوٹو موجود نہیں ہیں، بلکہ اِس کی جگہ انگوٹھے کا نشان ہوتا ہے۔ لیکن، ساتھ ہی، اُن کا کہنا تھا کہ پاسپورٹ میں تصویر لازمی ہوگئی ہے۔
اُنھوں نےاِس بات کی طرف توجہ مبذول کرائی کہ آئے دِن انتخابات میں جعلی پولنگ اسٹیشنوں کا الزام لگتا رہا ہے، جِس قسم کے واقعات دور دراز علاقوں میں لگتے رہتے ہیں۔ ساتھ ہی، ایسی زیرِ قبضہ پولنگ اسٹیشنوں پر بیلٹ پیپرز پر ٹھپے بھی لگ جاتے ہیں۔ لیکن، اُن کا کہنا تھا کہ یہ ایک جاری عمل کا حصہ ہے جِس میں مؤثر اقدامات لیے جانے پر بہتری ضرور آئے گی۔