پاکستان میں70 سے زائد سرکاری یونیورسٹیوں میں اساتذہ ، عملے کے دیگر اراکا ن کی تنخواہوں اور ان درسگاہوں میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے درکار وسائل کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن پاکستان کو درپیش مشکل اقتصادی صورت حال کے پیش نظر حال ہی میں وفاقی وزارت خزانہ نے ملک میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے قائم ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے کہا ہے کہ یونیورسٹیوں کی تمام ضروریات کو پورا کرنا حکومت کے لیے ممکن نہیں اس لیے سرکاری جامعات اپنے اضافی اخراجات کے لیے مالی وسائل خود اکٹھے کریں۔
حکومت کے اس فیصلے کو سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز نے فوری طور پر مسترد کرتے ہوئے احتجاجاََمستعفی ہونے اور سڑکوں پر احتجاج کرنے کی دھمکی بھی دی۔ اس معاملے کے حل کے لیے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ایک کمیٹی تشکیل دے رکھی ہے جس میں سرکاری جامعات کو بھی نمائندگی دی گئی ہے۔
وائس چانسلر ز کے ساتھ اظہار یکجہتی اور ان کے موقف کی حمایت میں بدھ کو ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں اساتذہ اور طالب علموں نے کلاسوں کا بائیکاٹ کرکے احتجاجی مظاہرے بھی کیے جن میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے حکومت سے مالی وسائل فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
راولپنڈی میں قائم بارانی زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر خالد محمود خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اگر وائس چانسلرز کو مالی وسائل فراہم نہیں کیے جاتے تواُن کے لیے تعلیمی ادارے چلانا مشکل ہو جائے گا۔ اُنھوں نے بتایا کہ حکومت نے بجٹ میں اساتذہ اور یونیورسٹوں کے دیگر عملے کی تنخواہو ں میں پچاس فیصد اضافے کا اعلان کیا ہے لیکن جامعات کے فنڈزمیں کٹوتی کے بعدسرکاری جامعات اساتذہ کو اضافی تنخواہیں ادا نہیں کر سکتیں۔ ” یا حکومت تنخواہوں میں پچاس فیصد اضافے کا اعلان واپس لے تاکہ لوگ ہمیں یہ نہ کہیں ، کہ یہ پیسے دیں ۔ وائس چانسلرز پیسے کہا ں سے دیں جب اُنھیں حکومت پیسے نہیں دیتی۔ حکومت نے ابھی کچھ احساس کیا ہے اور کمیٹی بنائی ہے جو یہ فیصلہ کرے گی کہ یونیورسٹی کے مسائل کس طرح سے حل کیے جاسکتے ہیں“۔
دریں اثناء بدھ کو وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی یونیورسٹیوں کو درپیش مسائل کا معاملہ زیر غور آیا۔ اجلاس کے بعد وزیر اطلاعات قمرزمان کائرہ نے بتایا کہ جب بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پچاس فیصد اضافہ کیا گیا تو کچھ یونیورسٹیوں نے اپنے وسائل سے اساتذہ اور عملے کی تنخواہوں میں اضافہ کر دیا کیوں کہ اُن کے پاس وسائل موجود تھے۔
وزیر اطلاعات نے بتایا کہ ملک کی کچھ یونیورسٹیاں اپنے وسائل سے تنخواہوں میں اضافے کی سکت نہیں رکھتیں اوراُن کو وفاقی حکومت امدادفراہم کرے گی۔
اُنھوں نے بتایا کہ کابینہ کے اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ جن یونیورسٹیوں کے ترقیاتی منصوبے نوے فیصد مکمل ہوچکے ہیں اُن کی تکمیل کے لیے تمام تر فنڈز فراہم کیے جائیں گے۔ قمرزمان کائرہ نے بتایا کہ جامعات کو درپیش مالی مشکلات کے حل کے لیے قائم کمیٹی کا اجلاس جمعرات کو ہوگا ، اُنھوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ یونیورسٹیوں کو درپیش مسائل حل ہو جائیں گے۔
وائس چانسلرز کے نمائندہ وفود نے بھی اس اُمید کا اظہار کیا ہے کہ معاملات جلد طے پائے جائیں گے۔ پاکستان میں سرکاری یونیورسٹیوں کے علاوہ 70 نجی یونیورسٹیاں بھی قائم ہیں لیکن اعلیٰ تعلیم فراہم کرنے والی ان درسگاہوں کی فیسیں سرکاری یونیورسٹیوں سے کہیں زیادہ ہیں اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے ایسے اداروں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلوانا ممکن نہیں۔